• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت کے بارے میں بڑے مخمصے کا شکار ہوں۔کبھی جی چاہتا ہے کہ منہ بھر کر بُرا کہوں، پھر جی یوں کہتا ہے کہ بھارت کو شوق سے برا کہولیکن اس کی عدلیہ کو کچھ نہ کہو۔کیسی توانا، کیسی مستحکم او رکیسی پر عزم عدالت ہے کہ جب باہر کھڑا ہوا لاکھوں کا مجمع گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگا رہا تھا کہ اس کا گرو بے قصور ہے، عدالت کے اصول پرست منصف لاکھوں کے دلوں پر راج کرنے والے ایک دیوانے کو نوجوان لڑکی کی آبرو ریزی کا مجرم قرار دے رہے تھے ، اس کو سخت سے سخت سزا دینے کی راہ ہموار کر رہے تھے۔نعرے شدت اختیار کرتے گئے، جذبے زور مارنے لگے ، اشتعال کا شعلہ بھڑک اٹھا، ہر طرف آگ پھیلتی گئی۔ لوٹ مار کا بازاگرم ہوا یہاں تک کہ لاشیں گرنے لگیں، ججوں نے اپنے حکم نامے پر دستخط کئے، قلم پر ڈھکن چڑھایااور واپس جیب میں رکھا اور جس ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر جیل کے اندر قائم کمرہء عدالت تک آئے تھے، اسی پر بیٹھ کر واپس چلے گئے۔ اور جس وقت تاحد نگاہ پھیلا ہوا مجمع چاہتا تھا کہ جیل کو توڑے اور گرو کو نکال لے جائے،عدالت کے اندر خود گرو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہا تھا اور بچوں کی طرح رو رہا تھا۔ مجمع بپھرا، آپے سے باہر ہوا، قانون اپنے ہاتھ میں لے کر سامنے آنے والی ہر شے کو نذر آتش کرنے لگا، فساد دور دور تک پھیلنے لگا، حکام بے بس نظر آنے لگے، ایک بات صاف تھی، عیاں تھی اور تاریخ کی دیوار پر لکھی جا چکی تھی۔ جو شخص معاشرے سے نکال کر بیس سال کے لئے قید خانے میں جھونک دیا گیا، اب اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔عدالت ہو تو ایسی، اور فیصلے ہو ں تو یوں۔
یہ گرمیت رام رحیم سنگھ کون ہے، اس کا قصہ کیا ہے، قارئین نے اب تک کافی پڑھ لیا اور سن لیا ہوگا۔بھارت کی ریاست ہریانہ کے شہر سرسا میں یہ نوجوان سکھ اچانک نمودار ہوا اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ بھگوان کا پیغام لایا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں اس کو ماننے والوں کی تعدادچھ کروڑ بتائی جاتی ہے۔ لوگ اس کی محبت میں گرفتار ہیں اور مُصر ہیں کہ وہ دیوتا ہے ۔ کسی نے کہا کہ وہ میرے والدین کی طرح ہیں بلکہ والدین سے بڑھ کر ہیں۔ سرسا میں گرو رام رحیم کا بڑے علاقے پر پھیلا ہوا صدرمقام ہے جو ڈیرا کہلاتا ہے۔ لوگوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ بے قصور ہے اور جلد ہی چھوٹ کر آئے گا۔ ان لوگوں میں ہندو ، مسلمان، سکھ اور مسیحی، سبھی شامل ہیںاور اس کا دعویٰ ہے کہ سارے کے سارے اس کے عاشق ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی شخصیت میں کوئی جادو ہے۔ لوگ اس کا منتر جپتے ہیں اور ہر طرح کی مصیبتوں سے محفوظ رہتے ہیںیہاں تک کہ وہ سڑک کے حادثوں سے بھی بچے رہتے ہیں۔ ڈیرے میں گرو رام رحیم کا اسپتال بھی ہے جہاں بارہا یہ ہوا کہ ان کا کوئی مرید علاج کے لئے آیا اور اس سے پہلے کہ ڈاکٹر اسے دیکھے، اچانک وہ خود ہی ٹھیک ہوگیا۔ گرو رام رحیم نے اپنی فلمیں بنائیں اور خود ہی اداکاری بھی کی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف روحانی پیشوا بلکہ مصنف، موسیقار، کھلاڑی، ماہر زراعت، گلوکار، ڈائریکٹر، سائنس داںاور عورتوں کے حقوق کا علم بردار بھی ہے۔کرکٹ کے سارے عظیم کھلاڑیوں کی تربیت اسی نے کی ہے۔
مگر پھر ہوا یہ کہ برسوں چلنے والے مقدمے کے بعد ثابت ہوگیا کہ اس نے اپنی عقیدت مند دو لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی جس پر اسے دس دس برس قید کی دو سزائیں سنائی گئیں۔ استغاثہ چاہتا تھا کہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے۔ اس کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کے ایک وکیل نے کہا کہ اَور پچاس عورتوں نے اس پر مجرمانہ حملوں کا الزام لگایا ہے ۔ اس نے کہا کہ اڑتالیس عورتیں اس کی بربریت کا نشانہ بنیں لیکن وہ سامنے نہیں آرہی ہیں۔ وہ یا تو ماردی گئیں یا رام رحیم کے خلاف گواہی دیتے ہوئے ڈرتی ہیں۔ رام رحیم پر دو افراد کے قتل کا الزام بھی ہے جس کی سماعت جلد شروع ہونے والی ہے۔ وہ خود انکاری ہے۔ گرمیت رام رحیم سنگھ کی عمر پچاس سال ہے۔ وہ سکھ ہے اورچوبیس برس کا تھا جب اس نے اپنی روحانی تنظیم قائم کی۔ وہ سیاست میں بھی سر گرم تھا اور ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا اتنا حمایتی تھا کہ ہریانہ میں اس کے ایک اشارے پر بی جے پی کو بے شمار ووٹ مل گئے۔ نہ صرف ریاست کے حکمراںبلکہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کی آشیرباد لی۔ تازہ خبر یہ ہے کہ مسٹر مودی نے کہا کہ دنگا فساد کسی صورت بھی قبول نہیں اور جو لوگ قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیں گے یا بلوا کریں گے ان کو بخشا نہیں جائے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہوں۔اسے کہتے ہیں راتوں رات منظر کا بدل جانا۔
تو یہ ہے سردار جی کی بڑے عرصے اور اس سے بھی بڑے علاقے پر پھیلی ہوئی کہانی کا خلاصہ۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا؟ جواب یہ ہے کہ سردار جی کو جیل میں قیدیوں کا کھدّر کا لباس پہنا دیا گیا ہے ۔ انہیں وہی کھانا ملے گا جو سارے قیدیوں کوملتا ہے اور ہفتے میں ایک روز ملاقاتیوں سے ملنے کی اجازت ہوگی۔ لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ کہ گرو بند ہے، اس کا چمتکار تو آزاد ہے۔ اس کے اندر اگر جادو جیسی کوئی تاثیر چھپی ہے تو وہ لوگوں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے گی۔ لاکھو ں لوگ اس کامنتر پڑھتے رہیں گے اور نہیں معلوم اس کا کیا اثر اور کیا نتیجہ ہوگا۔
مجھ پرجس چیز کا اثر ہے وہ ایک چھوٹا سا خط ہے جو سنہ دو ہزار دو میں گرو کی عقیدت مند لڑکی نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو لکھا تھا اور اپنی حالت بیان کی تھی۔ اس نے لکھا’’مہاراج نے مجھ سے کہا کہ دل و جان سے تمہیں چاہتا ہوں اور تم سے مل جانا چاہتا ہوں۔جب میں نے اعتراض کیا تو بولے کہ یہ جان رکھو کہ میں بھگوان ہوں۔ ‘‘ گرو نے اسے مار ڈالنے کی دھمکی دی اور کہا کہ لوگ اس کے عشق میں اندھے ہیں، اس کے خلاف زبان بھی نہیں کھولیں گے۔ اور اگر کوئی بولا تو یاد رہے کہ سرکار پر میرا اتنا اثر ہے کہ کسی حاکم نے کارروائی کی تو اپنی ملازمت سے جائے گا اور میں اسے مروا دوں گا۔ لڑکی نے لکھا کہ یہ شخص تین سال تک میری عزت سے کھیلتا رہا۔اس نے لکھا کہ اگر کوئی خوف نہ ہو تو ڈیرا کی چالیس پچاس لڑکیاں سب کچھ سچ سچ بتا سکتی ہیں۔ لڑکی کا یہ خط کام کرگیا۔ ایشور کا پیام بر اب جیل میں سڑ رہا ہے۔ نظام عدل کو سلام۔

تازہ ترین