• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک پہلے ہی کئی سنگین بحرانوں کے نرغے میں تھا، اب ملک میں کی گئی مردم شماری کے ابتدائی اعداد و شمار کا اعلان ہونے کے بعد ملک ایک اور سنگین بحران کی زد میں ہے، یہ اعداد و شمار جو شماریات ڈویژن کی طرف سے ظاہر کئے گئے ہیں کو ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کی حکومت ،پیپلز پارٹی اور صوبے کی اکثر سیاسی پارٹیوں نے مسترد کردیا ہے اورمردم شماری کے ان اعداد و شمار کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، سب سے پہلا ردعمل حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے آیا چونکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ ان نتائج کے ظاہر ہونے کے فوراً بعد حج کے لئے سعودی عرب روانہ ہوگئے، لہٰذا سندھ کے سینئر صوبائی وزیر نثار احمد کھوڑو جو سندھ پیپلز پارٹی کے صدر بھی ہیں نے پیر کو کراچی میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ حکومت کی طرف سے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ وفاقی حکومت نے ایک سازش کے تحت سندھ کی آبادی کو کم دکھایا ہے تاکہ قومی مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کے حصے میں اضافہ نہ کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت نے کہا تھا کہ ہر خاندان کو فارم کی کاپی فراہم کی جائے تاکہ کوئی شمار ہونے سے رہ نہ جائے مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ اعتراض بھی کیا کہ کافی عرصے تک مردم شماری کے نتائج کو راز میں رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ عمل سندھ سے بددیانتی اور اس کے خلاف سازش ہے۔ انہوں نے سندھ کی ساری سیاسی پارٹیوں کی کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہاکہ ان کے مشورے سے ایک مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔ دریں اثناء سندھ حکومت کے ایک اعلیٰ ذریعے نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی ان نتائج کو مسترد کرنے کے لئے صوبے بھر میں تحریک شروع کرنے کی تیاریاں کررہی ہے، بعد میں اس ایشو پر شماریات ڈویژن کے چیف کمشنر نے بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا کہ ’’مردم شماری‘‘ کے دوران ایک ایک شخص کی تصدیق کی گئی کہ اسے شمار کیا گیا، بہرحال یہ دعویٰ اس وقت مذاق نظر آیا جب حکومت سندھ کے کچھ ذرائع نے انکشاف کیا کہ اور تو اور وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر و سینیٹر تاج حیدر، ان کی بیگم اور ان کے گھر کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا۔ ان ذرائع نے کہا کہ جب حکومت سندھ سے وابستہ ایک اہم فرد جو سینیٹر بھی ہے، کے خاندان اور گھر کو بھی شمار نہیں کیا گیا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیا حشر ہوا ہوگا۔ یہ بات کسی سے چھپی نہیں کہ جب سے مردم شماری اور گھر شماری ہوئی ہے تب سے سندھ بھر سے کئی لوگوں کی متواتر شکایات آتی رہی ہیں کہ ان کے خاندان اور گھر کو شمار نہیں کیا گیا، سندھ کے مختلف حلقوں نے اس بات پر بھی حیرت ظاہر کی ہے کہ شماریات ڈویژن کے مطابق سارا لاہور شہر ہے جبکہ کراچی شہر کے دو اضلاع دیہی علاقے ہیں اور وہ شہری علاقے نہیں ہیں، سندھ کے حلقوں نے سوال کیا ہے کہ یہ فیصلہ کس فورم پر کیا گیا؟ کیا اس فیصلے کی سی سی آئی سے منظوری لی گئی تھی، مردم شماری کے نتائج سب سے پہلے سینیٹ کمیٹی میں زیر غور آئے جہاں سینیٹ کمیٹی نے مردم شماری کے ان نتائج کا دوبارہ جائزہ لینے کی ہدایت کردی،بہرحال وفاقی حکومت محکمہ شماریات نے سندھ کے اعتراضات کو مسترد کردیا، حکومت سندھ کی طرف سے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر تعلقہ کی سطح کا ڈیٹا فراہم کیا جائے تاکہ سندھ حکومت سی سی آئی کے اجلاس میں ان ایشوز پر بحث کرنے کی تیاری کرسکے۔ ایسے محسوس ہورہا ہے کہ مردم شماری کے ان نتائج کے خلاف دیگر صوبوں سے بھی آوازیں اٹھیں گی۔ فی الحال کے پی سے منتخب ممبر قومی اسمبلی آفتاب شیر پائو نے بھی مردم شماری کے خلاف اپنے تحفظات ظاہر کئے ہیں۔ مردم شماری کے یہ نتائج ظاہر ہوتے ہی اسلام آباد میں موجود پارلیمنٹرین نے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا،ان میں سے خاص طور پر سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ انہیں مردم شماری کے نتائج میں ہیر پھیر کا اندیشہ تھا مگر یہ علم نہیں تھا کہ سندھ کی آبادی 6 کروڑ سے کم کرکے 4 کروڑ کردی جائے گی۔ ان نتائج کو صرف سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے مسترد نہیں کیا ، دیگر جماعتوں نے بھی ان نتائج مسترد کرتے ہوئے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں ایم کیو ایم پاکستان، پاک سرزمین پارٹی، قومی عوامی تحریک اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی بھی شامل ہیں جبکہ سندھ کے کئی دانشوروں نے بھی مردم شماری کے ان نتائج کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار نقلی ہیں، جامی چانڈیو کا کہنا ہے کہ یہ نتائج یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ نتائج مینجڈ ہیں۔ مشتاق میرانی نے کہاکہ دوسرے صوبوں اور ملکوں سے لوگوں کی مسلسل سندھ آمد کے باوجود گروتھ ریٹ کم دکھایا گیا ہے ۔ جامی چانڈیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مینجڈ نتائج کا پس منظر سیاسی ہے۔ سندھ کے حلقوں کی طرف سے اس بات پر بھی حیرت ظاہر کی گئی ہے کہ اس ایشو پر سی سی آئی میں ہونے والے فیصلوں کی تفصیلات وفاقی حکومت کی طرف سے ظاہر نہیں کی گئیں! سندھ کے سیاسی حلقوں اور دانشوروں کی طرف سے کم سے کم دو سوالات انتہائی موثرانداز میں اٹھائے جارہے ہیں، وہ سوال کررہے ہیں کہ کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں میں آباد لاکھوں غیر قانونی غیر ملکیوں کا اس مردم شماری میں شمار کیا گیا ہے یا نہیں چونکہ اسلام آباد سے آنے والی اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو مردم شماری میں شمار کیا گیا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو پھر کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں آباد لاکھوں غیر قانونی غیر ملکیوں کو بھی شمار کیا گیا ہوگا۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ 2010 ء اور 2011 ء میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا کہ خاص طور پر ان غیر قانونی غیر ملکیوں کی تعداد لاکھوں میں ہے لہٰذا سپریم کورٹ نے واضح ہدایات دیں کہ ان غیر قانونی غیر ملکیوں کو فوری طور پر اپنے اپنے ملکوں کو واپس بھیجا جائے اور یہ کہ جب تک ایسا نہ کیا جائے ان کو کیمپوں میں منتقل کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی سماعت کے دوران خاص طور پر ہدایات دیں کہ ان کو کسی حالت میں بھی ہونے والی مردم شماری میں شمار نہ کیا جائے اور یہ بھی کہا کہ ان کو ووٹر فہرستوں میں درج نہ کیا جائے۔ ان حقائق کی روشنی میں ان حلقوں کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے باوجود اگر ان غیر ملکیوں کو مردم شماری میں شمار کیا گیا ہے تو یہ عدالت کے فیصلوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ ان حلقوں نے اس طرف بھی توجہ مبذول کرائی ہے کہ دس بارہ سال پہلے اپر سندھ میں آنے والے طوفان اور لوئر سندھ میں آنے والے سیلاب سے لاکھوں متاثرین پناہ حاصل کرنے کے لئے کراچی اور حیدرآباد آئے، اب بھی سپر ہائی وے کی سائیڈ میں یہ خاندان چھوٹے تنبوئوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی اچھی خاصی تعداد ملیر اور کراچی کے دیگر دیہات میں بھی اسی طرح زندگی گزار ر ہی ہے ۔ سندھ کے یہ حلقے سوال کررہے ہیں کہ ان ’’پناہ گزینوں‘‘ کو بھی کراچی کے شہری کی حیثیت میں مردم شماری میں شمار کیا گیا ہے یا نہیں۔

تازہ ترین