• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف بطور وزیراعظم نااہل ہوگئے کرپشن کے الزام میں نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی کمپنی سے ایک ماہ کی تنخواہ نہ لینے کو 2013ء کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر۔ ان کے مخالفین جو سیاسی میدان میں کسی دوسرے کے پراکسی کے طور پر کام کر رہے ہیں اس کو معرکہ سمجھتے ہوئے بغلیں بجا رہے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ ایک طاقتور وزیراعظم کو اتنی آسانی سے گھر بھجوا دیا گیا ہے جس طرح مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ان کا شوربجا ہے مگر جو سوال ہر ذی شعور شخص کر رہا ہے کہ ا سٹاک مارکیٹ میں صرف چند ماہ میں 14 ارب ڈالر (1500 ارب روپے) ڈوبنے کا ذمہ دار کون ہے جس سے عام انویسٹر پاناما کیس میں کارروائی کے دوران لٹ گئے۔ اس ہنگامے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بے انتہا ٹھیس پہنچی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ نے نوازشریف کے خلاف ہونے والی کارروائی پر بہت منفی ری ایکشن دیا۔ جب بھی سیاسی غیر یقینی اور افراتفری کا ماحول ہوگا تو نہ صرف اسٹاک مارکیٹ بلکہ عام کاروبار کا بھی بری طرح متاثر ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے 14ارب ڈالر کے نقصان کی فگر دی ہے جس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا یعنی یہ بالکل صحیح اعدادوشمار ہیں۔ نوازشریف کی وزیراعظم کے عہدے سے محرومی پر خوشیاں منانے والوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ اس بہت بڑے نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔ہم چونکہ چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے اپنے مخالفین کو ’’لتاڑتے‘‘ رہتے ہیں اور اسی مہم جوئی میں ہم نے شاید ہی کبھی سوچا ہے کہ ہمارے ملک کا کیا نقصان ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ا سٹاک مارکیٹ کی تباہی اور عام انویسٹرز کے اربوں ڈالر ڈوبنے پر نوازشریف کے مخالفین تھوڑی سی ہی شرمندگی کا اظہار کریں وہ نئی نئی توجیہات پیش کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ’’کرپٹ آدمی‘‘ کا احتساب ضرور ہونا چاہئے جس سے ملک کی بہتری اور ترقی ہوگی مگر نوازشریف کے خلاف تو کوئی کرپشن سرے سے ثابت ہی نہیں ہوئی اور نہ یہ ثابت ہوا ہے کہ انہوں نے سرکاری عہدہ استعمال کرکے کوئی مالی فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک سازش کے تحت پاناما کیس کو بہانہ بنا کرملک کا جو نقصان کیا گیا اس کے فوراً بعد ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی افغانستان اور پاکستان کے بارے میں اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرکے پاکستان کو سخت الفاظ میں دھمکیاں دے دیں۔ پاناما کیس کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی حالات خراب کئے گئے اور سیاسی افراتفری پیدا کرکے معاشی طور پر گھیرا تنگ کیا گیا اور اب مزید مشکلات صدر ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے پیدا کی گئی ہیں۔ اس کیس نے پاکستان کو معاشی طور پر بہت نقصان پہنچایا اور اب ٹرمپ کی حکمت عملی سے مزید نقصان کا ڈر ہے کیونکہ امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردوں کے ’’محفوظ ٹھکانوں‘‘ پر کارروائی کرسکتے ہیں۔ یہ افغانستان میں امریکہ کی لگاتار ناکامی کی وجہ سے ہونے والی فرسٹریشن ہے کہ وہ پاکستان کو موردالزام ٹھہرا رہا ہے۔ خود تو افغانستان میں کھربوں ڈالر غرق کر چکا ہے اور پھر بھی پورے ملک پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں بلکہ آدھا علاقہ طالبان کے پاس ہے مگر صدر ٹرمپ کو پاکستان کو دیئے گئے چند ارب ڈالر بڑے یاد آئے حالانکہ یہ رقم پاکستان کی ’’سروسز‘‘ کے مقابلے میں بہت ہی برائے نام ہیں۔ پاکستان کی جو تباہی 9/11 کے بعد امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے ہوئی ہے اس کا اندازہ 120 ارب ڈالر لگایا گیا ہے جس کے بارے میں امریکہ غور کرنے پر بھی تیار نہیں ہے۔
صحیح کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہت اچھی ہے یہ صرف جمہوریت کی وجہ سے ہی ہے کہ باوجود اس کے کہ پارلیمانی جماعتوں میں چھوٹے اور بڑے مسائل پر بے شمار اختلافات ہیں مگر صدر ٹرمپ کی سائوتھ ایشیا پالیسی کے بارے میں وہ یک زبان ہوئے اور امریکہ کہ صاف پیغام دیا کہ اب ہماری طرف سے ’’ڈو مور‘‘ کی بجائے ’’نو مور‘‘ ہے اور ہم سے جو کچھ ہوسکتا تھا کیا مگر ہم وہ کچھ نہیں کرسکتے جو امریکہ چاہتا ہے۔ تاہم اس جذباتی ماحول میں ہمارے تمام اسٹیک ہولڈرز کو چاہئے کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھلا رکھیں کیونکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ دنیا کا طاقت ور ترین ملک ہے جس کی نہ تو بہت دوستی اور نہ ہی بہت دشمنی اچھی سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے کچھ حلقے دن رات سیاست دانوں اور جمہوریت کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر یہ جمہوریت ہی ہے جس نے امریکہ کو انتہائی مناسب جواب دیا ہے جبکہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 9/11 کے بعد امریکی صدر نہیں بلکہ وزیر خارجہ کی ایک ٹیلی فون کال پر ہی اس وقت کےآمر پرویزمشرف لیٹ گئے تھے اور امریکہ کیلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوئے تھے جس کی واشنگٹن نے توقع بھی نہیں کی تھی۔ امریکہ کا خیال تھا کہ اس کی دی گئی چھ شرائط میں سے مشرف آدھی مان لیں گے اور آدھی ماننے سے انکار کر دیں گے مگر امریکی وزیر خارجہ بہت حیران ہوئے جب اس آمر نے ان کے تمام کے تمام مطالبات فوراً تسلیم کر لئے اس طرح پاکستان کو اندھیرے میں جھونک دیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے ہزاروں فوجی اور پولیس کے افسران اور نوجوان اور سویلینز اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوچکے ہیں۔ یہ جنگ ہمارے اپنے ملک کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے اور ابھی افواج پاکستان اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشتگردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔
اب کچھ الفاظ پیپلزپارٹی کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری کی آخری کرپشن ریفرنس میں بریت پر۔ 19 سال بعد یہ ریفرنس جس میں الزام تھا کہ ان کے اثاثے ان کے ذرائع آمدنی سے بہت زیادہ ہیں احتساب عدالت نے خارج کر دیا ہے۔ اس کے بعد آصف زرداری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان پر کرپشن کے تمام ریفرنس اور الزامات جھوٹے اور بے بنیاد تھے اور یہ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بنائے گئے تھے۔ ان کے اور پیپلزپارٹی کیلئے یہ پہلی اچھی خبر نہیں بلکہ گزشتہ کچھ عرصہ سےانہیں بڑی بڑی اچھی خبریں مل رہی ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے آصف زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین کا نام ای سی ایل سے ہٹا کر انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دیدی ہے۔ اس سے قبل شرجیل میمن کی ضمانت بھی منظور ہوگئی تھی۔ بلاول بلاخوف وخطر اور بغیر کسی رکاوٹ کے جلسے کر رہے ہیں جبکہ 2013ء کے الیکشن میں وہ دہشت گردی کے حملوں کے خوف کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلا سکے تھے۔ اس سارے ماحول نے کچھ لوگوں کو یہ دعویٰ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ آصف زرداری کی ڈیل ہوگئی ہے تاکہ نوازشریف کی آئندہ انتخابات میں سیٹیں کم کی جاسکیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے کیا جارہا ہے تاکہ پیپلزپارٹی اور دوسری سیاسی جماعتیں اتنی سیٹیں لے سکیں کہ وہ ایک انتہائی کمزور کولیشن گورنمنٹ بنائیں اور اس طریقے سے نون لیگ کا راستہ روکا جاسکے۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ باوجود اس تمام ماحول کے جو کہ آصف زرداری کیلئے بہت اچھا لگ رہا ہے پیپلزپارٹی اب بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ پنجاب میں کوئی خاطر خواہ انتخابی کارکردگی دکھا سکے اور اب بھی وہ کافی حد تک 2013ء کے انتخابات والی حالت میں ہے جب اس کو تاریخی شکست ہوئی تھی۔اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوئی ہے یا نہیں ہوئی پارٹی تووہ جیتے گی جس کو عوام ووٹ دیں گے۔ پیپلزپارٹی کو عوام کے دل جیتنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان 2002ء میں آمر پرویزمشرف کی ’’گڈ بکس‘‘ میں تھے مگر بڑی مشکل سے ایک ہی سیٹ وہ انہیں جتوانے میں کامیاب ہو سکے تھے جس کا پرویز مشرف نے بعد میں اعتراف بھی کیا تھا۔

تازہ ترین