• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی سمیت سندھ کے کئی شہروں میں طوفانی بارش نے تباہی مچا دی۔ 20افراد جاں بحق ہو گئے اور صورت حال سے نمٹنے کے لئے فوج بلانا پڑی۔ بدھ کی رات وقفوں سے شروع ہونے والی بارش میں اگلی صبح تیزی آگئی، کراچی شہر کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب گئے، کئی اہم سڑکیں دریا کا منظر پیش کر رہی تھیں برقی اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہو گیا۔ طوفانی بارش ویسے تو ایک قدرتی آفت ہے اور انسان ایسی آفات کے سامنے بے بس ہے لیکن بہت سے ممالک آئے روز طوفانوں کی زد میں رہتے ہیں اس کے باوجود وہاں کسی بھی صورت حال نمٹنے کے لئے انتظامات ہوتے ہیں جس سے نقصان کم ہوتا ہے۔ کراچی میں ہونے والی بارش ایک سو ملی میٹر ریکارڈ کی گئی ہے لیکن بہت سے ملکوں میں ایک ہی دن میں اس سے کئی گنا زیادہ بارش ہونا معمول کی بات ہے۔ محکمہ موسمیات نے مون سون کی ان بارشوں کی پیشن گوئی کر رکھی تھی لیکن حکومت سندھ، بالخصوص کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن صورت حال سے نمٹنے میں کامیاب نہ ہو سکی کراچی الیکٹرک سپلائی کے بجلی بند نہ ہونے کے دعوے بھی دھرے رہ گئے جس سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ صوبائی حکومت اور شہر کی انتظامیہ کے درمیان کھینچا تانی بھی جاری ہے اگر ضرورت پڑے تو وہ وفاق سے بھی شہر کے مسائل کے حل کے لئے مدد لے سکتے ہیں بڑے شہروں کی آبادی بڑھ رہی ہے، جس سے پرانے انفرااسٹرکچر کے اندر تعمیرات بھی بڑھ رہی ہیں لیکن سیوریج اور صحت وصفائی کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دے رہا ہے ایسے میں جیسا کہ کراچی میں بھی حالیہ بارش میں ہوا ہے، پولی تھین لفافوں نے پانی کی نکاسی میں رکاوٹ کھڑی کی، ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی میں سیوریج کا نظام نئے سرے سے تشکیل دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں سیوریج کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر بنایا جائے ورنہ آنے والے وقت میں مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔

 

.

تازہ ترین