• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیںیاد ہیں بچپن کے وہ دِن جب ہم کسی دوست یا رشتہ دار کی بارات میںبڑی سج دھج کے ساتھ باراتی بن کر دلہن بیاہنے جاتے، بارات دلہن کے گھر پہنچتی تو وہاں نکاح اور کھانے سے پہلے ایک عجیب و غریب طبقے کے’’ کچھ لوگوں‘‘ کے ساتھ واسطہ پڑتا ، یہ باوردی افراداپنے اسلحہ سمیت وہاں آن دھمکتے تھے، اور وہ بھی بغیر کسی خوف اور جھجھک کے ،یہ افراد عموماً پولیس کی وردی میں ملبوس ہوتے تھے ،بارات والی جگہ پر آتے ہی باراتیوں کو ڈرانا دھمکانا اِن کا خاص مشن ہوتا تھا۔آنے والے ان افراد کی تعداد تین یا چار ہوتی اور اِن کے پاس ’’ پلاسٹک ‘‘ میں لپٹا ہوا اسلحہ ہوتا تھا جووہ اپنی بغل کے نیچے چھپائے رکھتے تھے ۔یہ لوگ سب سے پہلے دولہا کے والد یا بھائی سے مخاطب ہوتے اور کہتے کہ شادی یہیں روک دی جائے، کوئی اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرے گا کیونکہ آپ کے خلاف تھانے میں شکایت لگائی گئی ہے ، جن لوگوں کو اِ س معاملے کے بارے میں معلومات نہیں ہوتی تھیں وہ سچ مچ ڈر جاتے اور منت سماجت کرنا شروع کر دیتے ،آنے والے جب محسوس کرتے کہ جنہیں ڈرایا جانا مقصود تھا وہ ڈر گئے ہیں تو یہ جعلی پولیس والے فوراً اپنی بغل سے مصنوعی پستول یا ’’ چمُوٹا ‘‘ نامی ہتھیار نکالتے اور باآواز بلند کہتے ، بھاغ لگے رہن ،بوہے وسدے رہن ،ہم جدی پشتی ’’ بھانڈ ‘‘ اور’’ بہروپیے ‘‘ ہیں ہمیں کچھ خیر خیرات عنایت کی جائے ، اُس کے بعد وہ کبھی گانے سناتے ، کبھی لطائف اور کبھی باراتیوں کی شکلوں ، لباس ،رنگت اور نقوش پر برجستہ اور مزاحیہ فقرات کی بوچھاڑ کر دیتے تھے ۔جس سے متاثر ہو کر باراتی اُن بہروپیوں اور بھانڈوں کو نقد پیسے انعامات کی صورت میں دیتے اور کچھ باراتی ایسے بھی ہوتے تھے جو اپنی جیب سے پیسے دے کر’’ بہروپیے یا بھانڈ‘‘ کو کہتے کہ فلاں دوست یا عزیز پر مزاحیہ فقرے بناؤ ، نکاح تک یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا ۔شادی بیاہوں میں بہروپیوں اور بھانڈوں کی آمد اِس محفل کا حصہ سمجھا جاتا تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ثقافت مدہم ہوتے ہوتے ختم ہو گئی ۔ہم زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں ،یہ بھانڈ اور بہروپیا جیسے الفاظ ہمیں اتنے سالوں بعد یاد کیوں آئے ؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کے لئے کالم لکھنے بیٹھ گیا ہوں ۔جب سے امریکہ میں ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے وہ عجیب و غریب حرکتیں کر تے نظر آ تے ہیں ، کبھی کسی کو ٹکر مار دیتے ہیں ، کبھی ٹکر کھا کر دُور جا گرتے ہیں ، کبھی ریسلنگ کے مقابلوں میں جا کر وہاں اداکاری کرتے ہیں ،دوسرے ممالک کے دوروں میں بھی اُن کی حرکات و سکنات پر وہاں کے مقامی لوگ اور حکومتی نمائندے حیران ہیں ،ٹرمپ کے بیانات میں مزاحیہ اور احمقانہ پن صاف دکھائی دیتا ہے ، وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے بیان داغ دیتے ہیں اور وہ بیان جاری ہونے کے بعد دُنیا میں تذبذب پایا جانا ایک فطری عمل بن جاتا ہے۔کچھ دِن پہلے امریکی صدر نے جنوبی ایشیا کے بارے میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قیام گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا ،انہوں نے پاکستان ، بھارت اور افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور اُن کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا اِن کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے ،ٹرمپ کے مطابق 20 دہشت گرد تنظیمیں افغانستان اور پاکستان میں کام کر رہی ہیں ،پاکستان کے ساتھ ہماری شراکت داری بہت سود مند ہوگی لیکن اگر دہشت گردوں کا ساتھ دیا گیا تو پاکستان کے لئے مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں ۔صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اُن تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں ، ہم پاکستان کو اربوں ڈالرز دیتے ہیں لیکن وہ دہشت گردوں یعنی ہمارے دشمنوں کو پناہ دینے سے باز نہیں آتے، افغانستان کے حوالے سے موصوف کا کہنا تھا کہ وہاں سے امریکی فوج کا انخلا صحیح ثابت نہیںہو گا اس سے دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اس بارے میں ہم زمینی حقائق پر فیصلہ کریں گے جس کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہوگی ۔ساتھ ہی موصوف نے نیا بہروپ اپناتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ کی ہے پاکستان کے عوام نے اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم پا کستانیوں کی ان قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے ۔صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ پہلے اُن کا ارادہ تھا کہ افغانستان سے فوجیں نکال لی جائیں لیکن وہ عراق میں کی جانے والی غلطی دہرانا نہیں چاہتے ہم افغانستان میں تب تک موجود رہیں گے جب تک ہم دہشت گردوں کے خلاف جیت نہیں جاتے ،صدر ٹرمپ اس سے پہلے بھی پاکستان کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں اس بار اگر اُن کے بیان کا تجزیہ کیا جائے توصاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں نیک خواہشات نہیں رکھتے، امریکی صدر کے حالیہ بیان میں پاکستان کی قربانیوں کو زد پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے ، حالانکہ نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے کے لئے پاکستان سب سے پہلے میدان میں اُترا اور اپنا بھر پور کردار ادا کیا تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو سکے ،آج بھی اگر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے یا سیکورٹی پالیسی پر غور کیا جائے تو دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان ، آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن رد الفساد جاری ہے ، پاکستان کی سیکورٹی پالیسی امن کے حوالے سے مکمل واضح ہے ایک طرف ٹرمپ پاکستان کے ماضی کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں تو دوسری جانب من گھڑت ا لزامات بھی لگا رہے ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ۔بھارت سمیت دوسرے ممالک اپنے تعاون اور اسلحہ خریدنے کی مد میں اپنی جیب سے پیسے دے کر امریکی صدر کو پاکستان پر الزامات لگانے، من گھڑت اور مزاحیہ فقرے کسنے کی دعوت دینے سے باز رہیں ، کیونکہ ایک دن باراتیوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ دھمکیاں اور بڑھکیں جعلی ہیں ویسے بھی ’’ بہروپیا اوربھانڈ‘‘ جیسےالفاظ پاکستانیوں کے جانے پہچانے ہیں اور پاکستانی ڈرپوک یا بزدل نہیں ،آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا جانتے ہیں ، وہ دن دُور نہیں جب امریکی پالیسی میکرز کو کہنا پڑے گا کہ پاکستانیو !! بھاغ لگے رہن ، بوہے وسدے رہن ، کچھ خیر خیرات ہمیں بھی ڈال دو ،ہم جدی پشتی ہیں ۔

 

.

تازہ ترین