• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی کوریا کی طرف سے اتوار کے روز کئے گئے ہائیڈروجن بم کے تجربے سے ایک جانب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حوالے سے عالمی تشویش بڑھی ہے دوسری جانب بڑی طاقتوں خصوصاً امریکہ کے ایٹمی قوت کے بل پر دیگر ممالک کو ہراساں کرنے کے طرز عمل کیخلاف کسی عالمی میکینزم کی ضرورت شدت سے اجاگر ہوئی ہے۔جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں امریکی ایٹم بموں سے پھیلنے والی تباہی کے بعد کئی ممالک نےیہ ایٹمی طاقت حاصل کی اور مزید تباہی پھیلانے والے ہائیڈروجن بموں کے تجربات کئے۔ بھارت کے پاکستان کو مٹانے کے عزائم نے برصغیر میں ہتھیاروں کی جو دوڑ شروع کی اسکے نتیجے میں نئی دہلی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے پاس بھی اسکے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ ڈیٹرنس کے طور پر ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ شمالی کوریا نے ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی میں جو پیشرفت کی اس سےدنیا میں ایٹمی ٹیکنالوجی پھیلنے اور متعلقہ خطے میں عدم استحکام کے خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ مگر شمالی کوریا اپنے طرز عمل کو درست ثابت کرنے کیلئے جنوبی کوریا میں غیرمعمولی امریکی اثرورسوخ اور امریکی دھمکیوں کا حوالہ دیتا ہے۔ پاکستان سمیت متعدد ملکوں نے شمالی کوریا کے ہائیڈروجن بم تجربے کی مذمت کی ہے۔ مگر پیر کے روز سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس شمالی کوریا کیخلاف کارروائی کا فیصلہ چین اور روس کے عدم اتفاق کی بنا پر کرنے میں ناکام رہا۔ ضرورت بھی اس بات کی ہے کہ خطے میں ایک نئی جنگ کی صورت پیدا کرنے کی بجائے جزیرہ نما کوریا کو جوہری اسلحے سے پاک کرنے پر توجہ دی جائے۔ ’’برکس‘‘ اجلاس کے موقع پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور چینی صدر شی چن پنگ کی ملاقات کے دوران بھی اسی بات پر زور دیا گیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی حکومت ماضی میں شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان مصالحانہ کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس وقت دنیا کو جس سنگین خطرے کا سامنا ہے اس سے فوری طور پر نمٹنے کیلئے سوئس حکومت کی نئی مصالحتی پیشکش سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔

تازہ ترین