• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بالی وڈ فلموں میں بھارت کو اتنا پرکشش اور دلکش بناکر پیش کیا جاتا ہے جس سے دنیا میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ بھارت ایک دلفریب ملک ہے جہاں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ غربت، ذات پات کا فرق، جہالت، لاعلمی، مذہبی انتہا پسندی اور مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات ابھارنے جیسی برائیاں بھارتی معاشرے کا حصہ ہیں جس کی ایک جھلک گزشتہ دنوں اُس وقت دیکھنے کو ملی جب بھارتی پنجاب میں بھگوان کا دعویٰ کرنے والے گرومیت رام کو بھارتی عدالت کی جانب سے 20سال قید بامشقت سزا سنائے جانے کے خلاف پورے بھارت میں ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں گرومیت کے 45سے زائد مرید ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ گرومیت پر الزام تھا کہ اُس نے اپنے آشرم پر آنے والی دو لڑکیوں کو زبردستی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جبکہ گرفتاری کے وقت گرومیت کے آشرم سے 30سے زائد لڑکیاں بھی برآمد ہوئیں۔ گرومیت پر درجنوں خواتین مریدوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنانے، دو مریدوں کو قتل کرنے اور آشرم میں 400مردوں کو ’’خدا کی خوشنودی‘‘ کیلئے اپنے مخصوص اعضاء کاٹنے کی جانب راغب کرنے کے الزامات بھی ہیں جس کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہیں۔
سکھوں کے نام نہاد روحانی بابا گرومیت سنگھ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے جن میں سے اکثریت کا تعلق نچلی ذات اور غریب طبقے سے ہے۔ شہرت کا شوقین خود ساختہ بھگوان گرومیت اکثر و بیشتر دیدہ زیب رنگ برنگے لباس پہن کر کنسرٹ میں گانے گاتا تھا جبکہ اُس نے ’’گاڈ میسنجر‘‘ (خدا کا پیغام پہنچانے والا) فلم میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ گرومیت کو ماننے والے اُسے بھگوان کا درجہ دیتے تھے اور اُس پر اندھا یقین رکھتے تھے۔ گرومیت کے مریدوں کے پاگل پن کی انتہا یہ تھی کہ گرومیت نے جب اپنے 400 سے زائد پیروکاروں کو مخصوص اعضا کاٹنے کا حکم دیا اور کہا کہ ایسا کرنے سے تم بھگوان کے قریب ہوجائو گے تو اُسکے پیروکاروں نے بلاسوچے سمجھے گرومیت کے حکم کی تعمیل کی۔ بھارتی عدالت میں سزا سنائے جانے کے بعد گرومیت نے گڑ گڑاکر رحم کی اپیل کی جس پر جج جسے سیکورٹی کے پیش نظر ہیلی کاپٹر کے ذریعے عدالت لایا گیا تھا، نے کہا کہ ’’تم کسی نرمی کے مستحق نہیں، تم جیسے درندے کو بھولے بھالے لوگوں نے بھگوان کے درجے پر فائز کیا مگر تم نے اُنہیں بھی نہیں بخشا۔‘‘
بھارت مختلف مذاہب، نسلوں اور زبانوں کا ملک ہے جہاں گرو، بابا، سائیں، یوگی اور سوامی جیسی بے شمار شخصیات پائی جاتی ہیں جو زمانے کے ستائے ہوئے غریبوں اور نچلی ذات کے لوگوں کو اپنے فریب میں جکڑ لیتی ہیں اور یہ شخصیات اتنی طاقتور ہوجاتی ہیں کہ حکمران اور سیاستدان بھی اُن کی خوشنودی کے متمنی رہتے ہیں۔ گرومیت سنگھ بھی اُنہی شخصیات میں سے ہے جو بھارت کی اتنی طاقتور شخصیت بن چکا تھا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح مودی حکومت بھی اُس کے آشرم پر ماتھا ٹیکتی تھی۔ پاکستان کی کہانی بھی بھارت سے مختلف نہیں۔ یہاں بھی کمزور عقیدہ رکھنے والے لوگ جعلی عاملوں، پیروں، فقیروں اور نجومیوں کو خدا کا درجہ دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوئوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی مذہبی اعتبار سے کمزور ہیں اور اُن کی یہ کمزوریاں اُنہیں کسی نہ کسی روحانی درگاہ لے جاتی ہیں جبکہ عام آدمی کی طرح پاکستان کا حکمراں اور سیاستدان طبقہ بھی جعلی عاملوں، پیروں، فقیروں اور نجومیوں کے چنگل میں گرفتار ہے۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، ذوالفقار بھٹو اور جنرل ضیاء الحق سے لے کر بینظیر بھٹو، نواز شریف، ظفر اللہ جمالی اور جنرل پرویز مشرف تک تمام پاکستانی حکمراں پیروں اور فقیروں کے زیر اثر رہے ہیں۔ فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب کورکمانڈر منگلا تھے تو اُن کا ہاتھ دیکھ کر ایک ماہر نجوم نے اُنہیں آرمی چیف بننے کی خوشخبری دی تھی اور آرمی چیف بننے کے بعد جنرل پرویز مشرف مذکورہ نجومی کی پیش گوئیوں پر اندھا یقین رکھنے لگے جبکہ سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین، سابق جسٹس افتخار حسین، معروف سیاستدان چوہدری شجاعت حسین، چوہدری فرخ الطاف، شیخ روحیل اصغر اور شیخ نعیم امجد سمیت سینکڑوں سیاستدان اور اعلیٰ افسران بدنام زمانہ عنایت سائیں باغبان پورہ لاہور اور ایم اقبال نجومی گوجرانوالہ کے مرید رہے ہیں جو سیاستدانوں اور اعلیٰ افسران سے فائدے اٹھاتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر آباد کے علاقے سیدنگر میں عمران حیدر زیدی نامی مذہبی شخصیت کے گھر جاپہنچے جبکہ سابق وفاقی وزیر داخلہ مخدوم فیصل صالح حیات دربار شاہ جیونہ کو اپنے مسائل کا حل قراردیتے تھے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو بابا تنکا والے سے چھڑیاں لگوانا اپنے لئے اچھا عمل سمجھتی تھیں جبکہ سابق صدر مملکت جنرل ضیاء الحق اور جنرل ایوب خان، بابا ملتانی کے عقیدت مندوں میں شامل رہے۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جس میں ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخصیات پیروں، فقیروں اور نجومیوں کی عقیدت مند رہی ہیں۔
بھارتی عدالت خراج تحسین کی مستحق ہے کہ اُس نے نام نہاد مذہبی پیشوا گرومیت کے لاکھوں مریدوں کی دھمکیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اُن کے ’’خود ساختہ بھگوان‘‘ کو منطقی انجام تک پہنچایا اور اس بات کی پروا بھی نہیں کی کہ گرومیت کے خلاف فیصلہ دینے کے کیا بھیانک نتائج سامنے آئیں گے؟ اس طرح نہ صرف ایک مجرم بے نقاب ہوگیا بلکہ لوگوں میں اُس کا جعلی تقدس بھی چکنا چور ہوگیا۔ گرومیت کو سزا سنائے جانے کے بعد اس بات کی توقع کم ہے کہ اُس کے پیروکار بت پرستی سے باز آجائیں اور قوی امکان ہے کہ وہ گرومیت کے چنگل سے نکل کر کسی دوسری نام نہاد مذہبی شخصیت کے فریب میں گرفتار ہوجائیں اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے۔

تازہ ترین