• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ سیاست کو اخلاقی معیار پر ناپتے ہیں اور آپ کو زبان و بیان پر بھی قدرت حاصل ہے تو آپ بلاشبہ مقبولیت کی سیڑھیاں تیزی سے طے کر سکتے ہیں۔کون ہے جو کاروبار ریاست میں شفافیت کا خواہاں نہ ہو۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اخلاقی مبلغین مخصوص اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ریاست کی طاقتور ترین اکائیوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ المیہ ہے کہ اخلاقی مبلغین میں سے بہت سے خود صاف شفاف اور ایماندار ہوتے ہیں لیکن تاریخی سیاق و سباق میں ان کی پیش کردہ آرا غیرارادی طورپر غیر جمہوری اور غیر منصفانہ طاقتوں کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال ہو جاتی ہیں۔عام طور پر اخلاقی مبلغین تاریخی سیاق و سباق کو نظر انداز کرتے ہوئے صداقت مطلق کا پرچار کرتے ہوئے منفی طاقتوں کو آگے بڑھانے کے لئے مددگار ثابت ہوجاتے ہیں ۔
پاکستان کی سیاست میں بنیادی کشمکش اسٹیبلشمنٹ اور سول اداروں بالخصوص سیاست دانوں کے درمیان ہے۔ یعنی کہ جمہوری طاقتوں کا ٹکراؤ ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ ہے۔ملک میں جونہی جمہوری ادارے پر پرزے نکالتے ہیں تو کسی نہ کسی جواز کے تحت مارشل لالگا دیا جاتا ہے۔ بلکہ پچھلی چار دہائیوں سے تو یہ ہو رہا ہے کہ جب مارشل لانہیں بھی ہوتا تو بھی ریاست کے کئی کلیدی اداروں کی باگ ڈور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہی رہتی ہے۔ حکمراںسیاسی پارٹیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں ہوتا کہ وہ لولی لنگڑی حکومت کے ساتھ نباہ کریں۔ اگر سیاست دان اس طرح کے انتظامی ڈھانچے کو توڑنے کی کوشش کریں تو ان کو لینے کے دینے پڑجاتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اس کھیل میں سیاست دانوں کی اپنی موقع پرستی کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب کوئی سیاسی پارٹی حزب اختلاف میں ہوتی ہے تو وہ اسٹیبلشمنٹ کی لاٹھی کا سہارا لینا شروع کر دیتی ہے اور سیاسی ادارے کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ ایسے مواقع پر اخلاقی مبلغین بھی سیاسی اداروں کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
پاکستان میں ویسے تو یہ ستر سال سے ہوتا آیا ہے لیکن یہ کشمکش نوے کی دہائی سے تیز تر ہو گئی جب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) حکومت میں آنے کے لئے باریاں بھی لیتی رہیں اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساز باز بھی کرتی رہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ دونوں پارٹیوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کا حصہ نہیں بنیں گی۔ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری نے عدلیہ کو بحال کرنے کا سمجھوتہ یہ کہہ کر رد کر دیا کہ سیاسی معاہدے آسمانی صحیفے نہیں ہوتے جن کی پابندی لازم ہو۔ پھر میاں نواز شریف بھی میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ بعد ازاں جب عدلیہ سے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عدالتی کارروائی کے ذریعے توہین عدالت کی سزا دلوائی گئی تو میاں نواز شریف ان کو گھر بھیجنے والوں میں پیش پیش تھے۔ اب جب میاں نواز شریف کو پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے معطل کیا ہے تو ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ غرضیکہ سیاستدان خود موقع پرستی کا شکار ہو کر اپنے پاؤں پر کلہاڑے چلاتے رہے ہیں۔لیکن میڈیا کے اخلاقی مبلغ بھی اس کھیل میں برابر کے شریک رہے ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ فیصلہ کن سیاسی طاقت اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے یا سیاسی اداروں کے اختیار میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی اداروں کی برتری کو تسلیم کیا جاتا تاکہ جمہوری عمل جاری رہ سکے۔ یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی سے عدالت عالیہ کے ذریعے ہٹایا جانا درست فیصلہ نہیں تھا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی منتخب شدہ اسمبلیاں وزیر اعظم کا مواخذہ کرتیں۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نے موقع پرست سیاستدانوں اور میڈیا کے اخلاقی مبلغین کی مدد سے ایسا بیانیہ مرتب کیا کہ یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا۔ یہی عمل میاں نواز شریف کی نااہلی کے لئے دہرایا گیا۔ پاکستان کے آئین اور جمہوری ملکوں میں اپنائے جانے والے لائحہ عمل کے مطابق وزیر اعظم کی نااہلی کا اختیار ملک کی قومی اسمبلی کے پاس ہونا چاہئے تھا۔ عدالت اپنے فیصلے کو قومی اسمبلی کے ا سپیکر کو بھیج دیتی اور پھر الیکشن کمیشن یہ طے کرتا کہ میاں نواز شریف صادق اور امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل ہوئے ہیں یا نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور عدالت عالیہ نے جس طرح فیصلہ کیا وہ جمہوری اقدار کی مضبوطی کا باعث نہیں بنا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ اسی کی دہائی کے بعد ایک مختلف پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔ اسی کی دہائی سے لے کر اب تک بہت سی نئی دولت پیدا ہوئی ہے جس سے ملک کے مختلف گروہوں نے اپنے اپنے انداز میں استفادہ کیا ہے۔ سیاست دانوں کی نئی امارت پر تو اخلاقی مبلغین بہت کچھ لکھ چکے ہیں لیکن جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے مختلف حصوں نے نئی دولت جمع کی ہے اس کو عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسی کی دہائی کے بعد صرف مخصوص سیاستدان ہی کروڑ پتی اور ارب پتی نہیں بنے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے مختلف حصوں نے اپنے اپنے انداز میں قومی دولت پر قبضہ کیا ہے۔ اخلاقی مبلغین کا غالباً دفاع یہ ہے کہ قومی دولت کی لوٹ مار کے خلاف کہیں سے تو شروعات ہونی چاہئیں۔ اس منطق میں سقم یہ ہے کہ ملک میں کئی دفعہ وزیر اعظموں کا احتساب ہوا ہے لیکن اس سے شفافیت لانے والے ادارے مضبوط نہیں ہوئے۔ بلکہ ہوا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دست و بازو اور مضبوط ہوئے ہیں اور وہ قومی دولت کے حصول میں اپنا حصہ بڑھاتے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں اخلاقی مبلغین کو اسٹیبلشمنٹ کی تطہیر کو اولیت دینا چاہئے نہ کہ آسان راستہ اپناتے ہوئے صرف سیاستدانوں کو اپنے منصب سے گرانے کے لئے دن رات صرف کرنے چاہئیں۔

تازہ ترین