• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راکھین میں روہنگیا مسلمانوں اور بودھ مت کے پیروکاروں میں کشیدگی کافی عرصے سے جاری ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ 2013میں راکھین ریاست میں نسلی فسادات کی وجہ سے سینکڑوں مسلمان ہلاک اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو کر پناہ گزین بن گئے تھے۔ میانمار میں بدھ مت آبادی ملک میں موجود لگ بھگ 12لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیشی مہاجرین یا دخل انداز سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بھی روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ادھر ایک خبر کے مطابق عیسائیوں کے مذہبی رہنما پوپ نے جہاں پاکستان کا دورہ کرنے کا عندیہ دیا ہے وہاں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی کسی مسلم ملک کی طرف سے مدد یا امداد اور نہ ہی کسی اسلامی کانفرنس یا عرب لیگ کی طرف سے ان کے قتل عام کو روکنے کیلئے کوئی اقدام اٹھایا گیا ہے جبکہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ نے حکومت برما (میا نمار) سے روہنگیائی مسلمانوں کو شہریت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مسلم ممالک کی اس بے حسی کی تحقیقات، چھان بین اور وجوہات جاننے کیلئے پوپ نے ایک خفیہ کمیٹی قائم کی ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ مسلمان اتنے بے حس کیوں ہو چکے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ مسلم ممالک نے کسی بھی پلیٹ فارم سے مناسب انداز میں روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اقوام عالم کے سامنے پیش نہیں کیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ ان کو جلا وطن اور ان پر حملے ایسے وقت ہوئے جب بیشتر اسلامی ممالک اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کر رہے تھے اور ان کے درمیان تیزی سے اختلافات اجاگر ہو رہے تھے۔ غریب مسلمان ممالک اقتصادی طور پر مفلوک الحال تھے (اور ہیں) امیر ممالک اپنے حال میں مگن تھے (اور ہیں) ان ممالک کی بین الاقوامی وابستگیاں آج بھی اسی طرح بٹی ہوئی ہیں جس طرح میانمار سے بے دخل کئے گئے روہنگیا مسلمانوں کے دنوں میں تھیں۔ ان مسلم ممالک کے سفارتی، اقتصادی، مالی، سیاسی، جمہوری اور دفاعی تعلّقات آج بھی ان ہی پرانے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ رشتوں اور تعلّقات کی یہ نوعیت دیکھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچنا کوئی مشکل امر نہیں ہے کہ عالم اسلام اور روہنگیا کے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں فعال کردار ادا کرنے میں کیوں ناکام رہا۔ سیاسی مسائل سے ہٹ کر بھی کچھ وجوہات ہوں گی اور روہنگیا مسلمان آخر ہیں کون اور ان کا ’’مقدمہ‘‘ بے پناہ دولت رکھنے والے مسلم ممالک نے کیوں لڑنا نہ چاہا۔ یہ جانا اور مانا جاتا ہے کہ روہنگیا بنگال (موجودہ بنگلہ دیش) سے یہاں آ کر آباد ہوئے تھے، انگریزوں نے انہیں خاص طور پر سری نامی کالونی کی طرح اٹھارہویں صدی میں یہاں بسایا تھا، بعد میں روہنگیا مزید دو مواقع پر یہاں خود آ کر آباد ہوئے تھے۔
پہلے 1947میں آزادی کے وقت اور دوسرے 1971میں بنگلہ دیش کی آزادی کی لڑائی کے وقت لیکن میانمار کے مغربی حصّے میں رہنے والے اس اقلیتی طبقے کے یہاں بسنے کو مقامی لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ لوگ (روہنگیا) حال ہی میں یہاں آئے ہیں لہٰذا انہیں میانمار کی شہریت نہیں دی جا سکتی لیکن دوسری طرف روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کئی صدیوں سے آباد ہیں اور یہیں کے شہری ہیں، جنہیں حکومت ٹارچر کر رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بنگلہ دیش میں 25,000روہنگیا گزشتہ 22برس سے پناہ لئے ہوئے ہیں لیکن انہیں ابھی بھی سرکاری طور پر پناہ گزیں کی حیثیت نہیں دی گئی کہ یہ ملک بھی دوسرے اسلامی ممالک کی طرح پناہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے ۔اس سے قبل مئی 2014میں ایک بودھ خاتون کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور قتل کے بعد روہنگیا مسلمانوں اور اکثریتی آبادی والے بودھوں کے درمیان فسادات اور قتل و غارت گری شروع ہو گئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے فسادات نے ایسی شکل اختیار کر لی کہ اقوام متحدہ کو بھی مداخلت کرناپڑی۔ 3؍جون 2014کو بدھٹوں کے ایک گروہ نے تو تاپ نام کی ایک جگہ پر ایک بس پر حملہ کر دیا۔ ان کو شک تھا کہ بس میں عصمت دری کرنے والے ملزمان جا رہے ہیں۔ اس حملے میں دس افراد مارے گئے جن میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی جس کے جواب میں روہنگیا مسلمانوں نے بھی بدھٹوں پر حملے شروع کر دیئے اور یہیں سے اس ملک میں فسادات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
ان فسادات میں صرف روہنگیا مسلمانوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ملک کے دوسرے حصّے میں رہنے والے مسلمان بھی اس کی زد میں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ان فسادات کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر پناہ گزین کیمپوں میں غیر انسانی طریقے سے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ان کیمپوں کی حالت اتنی خستہ ہے کہ لوگ یہاں سے کسی طرح بھاگ جانا چاہتے ہیں۔ وہ پڑوسی مسلم اکثریت والے ممالک بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملائیشیا کی طرف نہ صرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ موقع ملنے پر فرار ہونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس کوشش میں بہت سے روہنگیا نے اپنی جان بھی گنوا دی ہے اور بہت سے کھلے سمندر میں کشتیوں پر رہنے لگے ہیں کیونکہ کوئی اسلامی ملک ان کو پناہ دینے کیلئے تیار نہیں ہے اور یہ حکومت میانمار کا تشددسہنے پر مجبور ہیں۔
میرے خیال میں ایسے فسادات راتوں رات نہیں ہوتے اس کیلئے پہلے سے ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار اب قابل رحم ہو گئی ہے اور اس قابل رحم حالت کا دہشت گرد اور انتہاپسند فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
دونوں ہی سے رشتہ رکھ دونوں سے ہوشیار رہو
انسانوں کی جان کا دشمن لوہا بھی ہے سونا بھی!

تازہ ترین