• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمالی کوریا اس وقت ایک بدمست ہاتھی کی طرح پوری دنیا پر چنگھاڑ رہا ہے لیکن دنیا کوئی فیصلہ نہیں کرپارہی کہ اس بدمست ہاتھی کو کس طرح قابو میں کیا جائے، شمالی کوریا سے سب سے زیادہ خطرات یا تو جنوبی کوریا کو ہیں جس کی سرحدیں شمالی کوریا کے ساتھ ملی ہوئی ہیں اور کسی بھی جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اسے ہی ہوگا جس کے بعد دوسرے نمبر پر جاپان جیسا ترقی یافتہ ملک ہے جو شمالی کوریا کے میزائلوں کے نشانے پر ہے، اب تک جاپان کو شمالی کوریا کے بیلسٹک اور کروز میزائلوں کا ہی سامنا تھا لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران شمالی کوریا نے ایٹمی بم سے بھی خطرناک ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا ہے جس کے بعد اب جنوبی کوریا اور جاپان کو شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی اور ہائیڈروجن بم سے لیس میزائلوں کے خطرے کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے لہٰذا جاپان اور اس کے عوام کی سلامتی کو لاحق خطرات میں بھی بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے۔ ماضی میں کئی جاپانی سفارتکاروں سے بات چیت کے دوران اندازہ ہوا تھا کہ شمالی کوریا کے خلاف امریکہ کی جانب سے اب تک نہ کی جانے والی فوجی کارروائی کی اہم وجوہات میں ایک تو عالمی برادری کا شمالی کوریا کے خلاف ایک پیچ پر نہ ہونا اور دوسری اہم وجہ شمالی کوریا کی جنوبی کوریا کے ساتھ منسلک جغرافیائی سرحدیں ہیں جہاں کسی بھی کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت یقینی ہے جنوبی کوریا کے لئے شمالی کوریا کے عوام جو شمالی کوریا کی حکومت کے ستائے ہوئے ہیں بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور جنوبی کوریا نہیں چاہتا کہ کسی بھی صورت دونوں ممالک کے عوام کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑے یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور جاپان نے صبر و برداشت کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے لیکن گزشتہ دنوں شمالی کوریا کے ہائیڈروجن تجربے نے بہت سے ممالک کی آنکھیں کھول دی ہوں گی خاص طور پر امریکہ جو جنوبی کوریا او ر جاپان کی سلامتی کا ذمہ دار ہے جس کے لئے کئی لاکھ فوج امریکہ نے جاپان اور جنوبی کوریا میں رکھی ہوئی ہے اوردونوں ممالک سے سالانہ اربوں ڈالر بھی وصولتا ہے ان مشکل حالات میں اپنے قریب ترین اتحادیوں کو غیر محفوظ نہیں چھوڑ سکتا، دوسری جانب روس جس کی پالیسی ہی امریکہ مخالف ہے اس کے لئے بھی بہترین موقع ہے کہ وہ امریکہ کی مخالفت اور شمالی کوریا کی حمایت میں سامنے آجائے، روس کبھی یہ نہیں بھول سکتا کہ افغانستان میں امریکہ کی نگرانی میں روس کو شکست ہوئی اور سوویت یونین ٹوٹ کر کئی چھوٹے چھوٹے ممالک میں تبدیل ہوگیا اور اب روس چاہتا ہے کہ امریکہ کسی جنگ میں پھنسے اور روس اس سے حساب برابر کرلے، شام کی جنگ میں روس نے امریکی مفادات کو زبردست نقصان پہنچایا ہے جبکہ شمالی کوریا کے حوالے سے چین کے ساتھ مل کر روس نے بیان دیا ہے کہ شمالی کوریا اپنا میزائل اور ایٹمی پروگرام منجمد کردے جبکہ امریکہ بھی صبرو تحمل کی پالیسی اپنائے یعنی روس اور چین نہیں چاہتے کہ امریکہ شمالی کوریا کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرے جبکہ روس اور چین نے امریکہ کے اس بیان کی بھی مخالفت کی کہ امریکہ ان ممالک کے ساتھ بھی اپنے تجارتی تعلقات ختم کردے گا جن ممالک کے شمالی کوریا سے کسی بھی طرح کے تعلقات ہیں۔ اس دفعہ لگتا ہے کہ خطہ ایک خطرناک جنگ کی لپیٹ میں آنے کو ہے ایک طرف امریکہ جنوبی کوریا، جاپان اور اتحادی ممالک ہیں تو دوسری جانب شمالی کوریا کے ساتھ چین، روس اور ان کے اتحادی ممالک موجود ہیں دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ شمالی کوریا جس کی حمایت میں چین اور روس بھی کھڑے ہیں کو کس طرح اپنی بات منوانے پر مجبور کرتا ہے اس وقت جاپان اور جنوبی کوریا کے کروڑوں عوام کی نظریں اپنی سلامتی کے ذمہ دار ملک امریکہ کی جانب لگی ہیں اور امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے لئے شمالی کوریا ایک ٹیسٹ کیس کی صورت میں موجود ہے۔
عالم اسلام میں اہم دینی فریضہ عیدالاضحی کی ادائیگی کی گئی پاکستان میں بھی عیدالاضحی دینی جوش و جذبے سے منائی گئی ۔ پاکستان میں ایک سروے کے مطابق تقریباً پچاسی لاکھ جانور قربان کئے گئے جبکہ دنیا بھر میں پانچ کروڑ سے زائد جانوروں کی قربانی کی گئی لیکن افسوس کہ جس طرح جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے اسی طرح عالم اسلام کی ایک قوم برما میں جانوروں کی طرح قربان ہورہی ہے، برما میں سرکاری فوج اور انتہاپسند برمی مذہبی قوتیں روہنگیا مسلمانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرتی نظر آرہی ہیں، حالیہ دنوں میں کئی دلخراش ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں لیکن عالم اسلام اور اقوام متحدہ میں کوئی نہیں ہے جو برما جیسے چھوٹے ملک پر انسانیت سوز مظالم رکوانے کیلئےدبائو ڈال سکے، جمہوریت کے لئے جدوجہد کرکے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی آن سانگ سوچی، جو برما کی حکمراں ہیں انہوں نے مسلمانوں کے قتل عام کو رکوانے کے لئے تاحال کوئی کردار ادا نہیں کیا اور دنیا بھر میں ان سے نوبل امن انعام واپس لینے کے لئے مہم شروع کردی گئی ہے جو بلاشبہ ان سے واپس لے لینا چاہئے، اس وقت نہ صرف عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو چاہئے کہ برما کی حکومت پر سخت دبائو ڈالے تاکہ وہاں مسلمانوں کا قتل عام رکے بلکہ بنگلہ دیش اور دیگر اسلامی ممالک روہنگیا کے مسلمانوں کو پناہ دیں اور اقوام متحدہ او آئی سی کے ساتھ مل کر ان پناہ گزینوں کے اخراجات برداشت کرے۔ نہ جانے کیوں گزشتہ تین دہائیوں میں دنیا بھر میں مسلمان ہی جنگ و جدل اور نسل کشی کا نشانہ بنے ہیں افغانستان میں پہلے سوویت یونین نے داخل ہوکر لاکھوں افغان مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلایا جس کے بعد یہی کام امریکہ نے سوویت یونین کو نکالنے کے لئے کیا ۔ اسی طرح اسرائیل اور فلسطین تنازع میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، کشمیر میں بھارتی افواج مسلمانوں پر وحشیانہ ظلم ڈھا رہی ہیں، شام عالمی دہشت گردوں کا مرکز بن چکا ہے، لیبیا اور عراق بھی تباہی کا منہ دیکھ چکے ہیں اور لاکھوں مسلمانوں کی جانیں گنوا چکے ہیں، یمن میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی، بوسنیا میں بھی مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی، غرض پوری دنیا میں ہونے والی ہر جنگ میں مسلمان ہی نشانہ بنے ہیں لیکن اب دنیا کو جنگ سے پرہیز کرنا چاہئے، شمالی کوریا کے خلاف متحد ہوکر اسے ایٹمی و ہائیڈروجن بم جیسے خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہوگا تو دوسری جانب برما کو مسلمانوں کی نسل کشی سے بھی روکنا ہوگا شمالی کوریا کو روکنے کے لئے امریکہ، روس اور چین مشترکہ طور پر کردار ادا کرسکتے ہیں جبکہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لئے جاپان اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

تازہ ترین