• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کے کسی دورافتادہ گوشے میں اگر کسی غیرمسلم کی نکسیر بھی پھوٹ جائے تو انسانی حقوق کے تحفظ کی ٹھیکیدار اور علمبردار نام نہاد تنظیمیں آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں اور میڈیا ان کی کوریج کرنا اپنا فرض سمجھتا ہےجبکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی ٹوٹ جائیں تو یہ نام نہاد تنظیمیں ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد پر ان نام نہاد تنظیموں کی بے حسی کا مظاہرہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے اور میانمار (سابق برما) کے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، پر خاموشی اختیار کرنا مغرب کی ان نام نہاد تنظیموں کی قلعی کھول دیتا ہے۔ روہنگیا مسلمان میانمار کے صوبے راکھین ( جس کا پرانا نام ارکان یا اراکان ہے) کے پرانے باسی ہیں۔ علاقے کو یہ نام یہاں کے مسلمانوں نے اسلام کی نسبت سے دیا تھا۔ ان مسلمانوں کی آبادی دس سے پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ محض عقیدے کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ عمل کے اعتبار سے بھی پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ روہنگیا مسلمان دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں جن کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ یہ بے بس اور لاچار لوگ گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ دنیا کی وہ بدنصیب آبادی ہے جس کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں یہ اگر بنگلہ دیش کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کے حکمران انھیں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور اگر یہ تھائی لینڈ چلے جائیں تو بے رحم انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر جانوروں کی طرح فروخت کردیئے جاتے ہیں۔ راکھین میں مسلم کش کارروائیوں کا مذموم سلسلہ 2012 سے جاری ہے۔ اراکان میں روہنگیا مسلمان 16 ویں صدی سے آباد ہیں، چند متعصب برمی حکمرانوں کو چھوڑ کر عام بدھ متوں اور مسلمانوں کے تعلقات خوشگوار رہے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے اراکان پہ قبضہ کر لیا اور اس وقت انہوں نے بنگالی مسلمانوں کو اس علاقے میں بسا دیا اور یوں خصوصاً شمالی علاقے میں مسلمانوں کی آبادی 98 فیصد تک پہنچ گئی۔ بیسویں صدی میں مغربی اثرات کے باعث برما میں بدھ مت قوم پرستی نے جنم لیا۔ ان قوم پرستوں نے انگریزوں کے علاوہ ہندوستانی مسلمانوں کو بھی ’’غیرملکی‘‘ قرار دیا۔ کیونکہ ہندوستانی مسلمان اپنی اقدار، روایات، تہذیب و ثقافت پر پوری طرح کاربند تھے اور اپنی ان روایات کو زندہ رکھے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں اس وقت یہ روہنگیا مسلمان برمی کاروبار و تجارت پہ چھائے ہوئے تھے جو برمی قوم پرستوں کی آنکھوں کو ذرہ بھر نہ بھاتی تھی۔ انھوں نے ان مسلمانوں کو واپس ہندوستان بھیجنے کے لئے ان پر علاقے میں اپنی نئی ریاست قائم کرنے کا الزام لگانا شروع کردیا جس سے نفرت کی آگ پھیلتی چلی گئی۔
روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے بدھ مت کے پیروکار ہیں جن کے مذہب کے بارے میں یہ پرچار کیا جاتا ہے کہ یہ امن و عدم تشدد اور صلح و آشتی کا مذہب ہے لیکن میانمار میں یہ بدھ مت وحشی درندوں کا روپ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ سولہویں صدی سے آباد روہنگیا مسلمان جن کی کئی نسلیں یہاں پروان چڑھیں لیکن اس کے باوجود ان کو میانمار کی شہریت سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے جو کھلی زیادتی اور سراسر ناانصافی ہے۔ عالمی اداروں نے اگرچہ اس بات کا اعتراف تو کرلیا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کو چن چن کر ختم کرنے کا سلسلہ بلا روک ٹوک مسلسل جاری ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، سب سے زیادہ دکھ اور شرم کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کو مظلوم روہنگیا مسلمان بھائیوں کی فلک شگاف چیخیں سنائی نہیں دے رہیں اور مسلمان حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں دھت ہیں۔ اس سلسلے میں صرف ترکی ہی نے بین الاقوامی سطح پر میانمار کے لئے آواز بلند کی ہے۔ ترک صدر ایردوان نے میانمار کے حکام کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر دنیا خاموش رہے تو بھی ترکی خاموش نہیں رہے گا۔ انہوں نے عید کے موقع پر اپنی جماعت کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ چیئرمین کی حیثیت سے تین دن سے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں تنظیم کے رکن ممالک کے صدور کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کر رہا ہوں، میں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھی ٹیلی فون کیا ہے اور روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو فوری طور پر رکوانے کے لئے حرکت میں آنے کی اپیل کی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ’’19ستمبر سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو زیادہ مختلف شکل میں بیان کریں گے۔ دو طرفہ ملاقاتوں میں اس موضوع پر بات کریں گے، کوئی اس موضوع پر زبان نہ بھی کھولے تو ہم بات کریں گے۔‘‘ صدر ایردوان نے کہا کہ روہنگیا مسلمان جغرافیائی طور پر ترکی سے دور بھی ہو تو بھی پاکستان کی طرح ترک عوام کے دلوں میں بستے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کا ماسک پہن کر کی جانے والی اس نسل کشی پر خاموش رہنے والا ہر کوئی اس قتل عام کا ساجھے دار ہے۔ ان انسانوں کو جنگل میں راستہ بھولے ہوئے ہرن، باغیچے میں گرنے والے پر ٹوٹے پرندے اور سمندر میں نیزے سے زخم کھائی ہوئی مچھلی جتنی اہمیت بھی نہ دینے والے ذرائع ابلاغ بھی اس قتل عام میں شامل ہیں۔ صدر ایردوان نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی جان بوجھ کر نسل کشی کی جا رہی ہے۔20 ہزار مظلوم، مجبور اور بے بس انسانوں کے دیہات کو، گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔ یہ لوگ دربدر ہو کر بنگلہ دیش کا رُخ کر رہے ہیں، سینکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور یہ سب کچھ انسانیت کی نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے لیکن افسوس کہ انسانیت اس کے مقابل خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روہنگیا مسلمانوں کی نصف صدی قبل کی 4 ملین آبادی کو قتل عام اور دبائو کی پالیسیوں کے ذریعے ایک تہائی تک گرا دیئے جانے پر عالم اسلام کی خاموشی ایک الگ المیہ ہے۔ ہم اس موضوع کی حساسیت پر بات کر رہے ہیں، بین الاقوامی میکانزم کو متحرک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور علاقے میں انسانی امداد کی کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ صدر ایردوان نے روہنگیا مسلمان کے بارے میں اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مسلمانوں کے تحفظ اور ان کو دوسروں علاقوں میں بسانے پرجو اخراجات آئیں گے ترکی برداشت کرنے کے لئے تیار ہے۔ ترکی کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے صدر ایردوان کی ہدایت پر دوسرے ممالک کے سربراہان سے رابطہ قائم کرتے ہوئے اس مسئلےپر دنیا بھر کی توجہ مبذول کروانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترک صدر ایردوان نے پاکستان کے صدر ممنون حسین کو بھی ٹیلی فون کرتے ہوئے اس مسئلے کے حل اور روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم رکوانے کے بارے میں بات چیت کی ہے۔

تازہ ترین