• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانمار کہ جہاں مسلمانوں کا کسی سے مواصلاتی رابطہ نہیں، کوئی ڈاک کا انتظام نہیں، کوئی نہیں جو دوسروں تک ظلم و تشدد پر مبنی پیغام رسانی کاکام کرے ،خط، تار، انٹر نیٹ ،ای میل، وٹس آپ، میسنجر کچھ بھی تو نہیں، آخر میانمار کے روہنگیا مسلمان اپنی فریاد کس سے اورکیسے کریں؟ کچھ بچوں نے مل کر میانمار کے در و دیوار پر لکھا ہے کہ ہماری طرف محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، سلطان صلاح ایوبی اور خالد بن ولید کب آئیں گے؟ انہوں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریروں میں پوچھا ہے کہ کیا زندہ انسانوں میں ایسا کوئی مسیحا ہے جو ہمارا چارہ گربنے؟ روہنگیا مسلمانوں کی لاوارث اور کٹی پھٹی لاشوں کو گدھ نوچ نوچ کر امن کے ٹھیکیداروں کے ضمیر جھنجھوڑ رہے ہیں، اجتماعی قبریں بنا کر اُن میں زندہ انسانوں کو منوں مٹی ڈال کر مارا جا رہا ہے، مسلمان خواتین کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں، بچوں کے لاشے ٹکڑے ٹکڑے کرکے جانوروں کے پیٹ کی بھوک مٹائی جا رہی ہے۔ زندہ بچ جانے والے روہنگیا مسلمان تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش میں پناہ تلاش کرنے کیلئے کھلے سمندر کی بپھری لہروں کے سپرد ہو رہے ہیں۔ بوسنیا، کوسووا، فلسطین، شام ،لبنان اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ میانمار میں بودھوں نے مسلمانوں پر قیامت صغریٰ بپا کر دی۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ اور دوسری بڑی طاقتوں نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے گونگے اور بہرے ہونے کا ثبوت دیا ہے ،اِن بڑی طاقتوں پر قطعاً دُکھ نہیں ،افسوس تو اِس بات کا ہے کہ اسلامی ممالک اور اُن کا اتحاد بھی روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و تشدد پر خاموش ہے، کوئی احتجاج نہیں، کسی ملک نے میانمار کے سفارت خانوں میں احتجاجی یادداشت پیش نہیں کی ،صد حیف کہ امریکہ، گلف اور یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی جو دُنیا بھر میں ہونے والے حادثوں میں ہلاک ہونے والوں کیلئے شمعیں روشن کرتے ہیں، اُن کی یادگاروں پر پھول رکھتے ہیں، احتجاجی جلسے اور جلوس نکالتے ہیں وہ اسلامی، سماجی اور سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی اِن ممالک میں میانمار (برما ) کے سفارت خانوں کے سامنے کوئی احتجاج نہیں کیا، کوئی یادداشت پیش کی اور نہ ہی کوئی احتجاجی جلوس نکالا۔ اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے اپنائیت کا جذبہ نہ رکھنے کی وجہ سے شایدآج دُنیا بھر میں مسلمان ظلم و تشدد کا شکار ہیں ؟اسپین سمیت یورپ کے دوسرے ممالک میں مقیم مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مقامی لوگوں کو خوش کرنے، اپنا کاروبار بچانے یا مقامی اداروں سے امدادی رقوم لینے اور مقامی حادثات میں اپنی نمائندگی ظاہر کرنے کیلئے شمعیں روشن کریں، احتجاجی جلوس ضرور نکالیں، لیکن کبھی کبھی اِن مالی فوائد کو پس پشت ڈال کر اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے بھی آگے آئیں ،یہ نہ سوچیں کہ 70سال سے کشمیر کی آزادی کیلئے آواز بلند کر رہے ہیںاورکچھ نہیں بنا، ایسا نہیں ہے، کیونکہ کشمیر کی آزادی کیلئے تارکین وطن پاکستانیوں کی آواز اور کشمیریوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ آزادی کے سورج کے طلوع ہونے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔ میانمار کے بارے میں محل وقوع اور اُس کی مسلمانوں کے حوالے سے تاریخ کچھ یوں ہے، میانمار کے علاقہ اراکان میں بسنے والے مسلمانوںکو روہنگیا مسلمان کہا جاتا ہے۔ دُنیا بھر میںمہاتما بدھ کے پیروکاروں کی تعداد قریباً 35 کروڑ ہے جو زیادہ تر ایشیائی ممالک میں آباد ہیں۔ ان ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، لائوس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملک میانمار، جسے برما کے پرانے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1937ء تک برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر برطانیہ نے 1937ء میں اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علیحدہ کالونی کا درجہ دے دیا اور 1948ء تک یہ علاقہ بھی برطانوی تسلط کے زیر اثر رہا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی میانمار (برما) میں ہی جلاوطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیاتھا۔میانمار کی 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میںتقریباً ساڑھے 22 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050ء سے ملتے ہیں۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت راکھین (رخائن) میں آباد ہے اور یہاں تقریباً 6 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں جنہیں ’’روہنگیا‘‘ کہا جاتا ہے۔مہاتما بدھ کا کہنا تھا کہ کسی جانور کو قتل کرنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی انسان کو قتل کیا جانا، لیکن اُن کے پیروکاروں نے 1942ء میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسی منظم تحریک شروع کی جس کے تحت مارچ 1942ء سے جون 1942ء تک صرف تین ماہ میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہیدکر دیئے گئے۔1950ء میںبھی ہزاروں مسلمان شہیداوربے گھر ہوئے۔ 1962ء میں برما کی ملٹری حکومت نے اراکان کے مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری رکھا جو 1982ء تک جاری رہا اور اس عرصہ میں بیس لاکھ مسلمان ہجرت کرنے پر مجبور اور لاکھوں شہید ہوئے۔1991ء اور 1997ء میں بھی مسلمانوں پر بڑے منظم حملے ہوئے۔جون 2012ء سے دوبارہ مسلمانوں پر حملوں کا آغاز کیا گیا۔ یہ حملے اکتوبر 2016ء تک جاری رہے اور اب 25 اگست 2017ء کو ایک بارپھر مسلمانوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیاہے جہاں ایک ہفتے کے اندر پندرہ سے بیس ہزار مسلمان جن میں نوجوان، بوڑھے، بچے اور خواتین کو شہید کر دیا گیا۔اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی اور گلف ممالک کو چاہئے کہ وہ اِس بربریت کی تحقیقات کرائیں اور میانمار میں مقیم مسلمانوں کی زندگی اور مال کو محفوظ بنانے میںاُن کی مدد کریں ۔پاکستانی حکومت سمیت تمام اسلامی ممالک کو بھی میانمار کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی ۔میانمار میں حکومت کوئی بھی ہو لیکن وہاں کی حقیقی سربراہ آنگ سان سوچی ہے جو جمہوریت قائم کرنے کی پاداش میں خود بھی جیل کاٹ چکی ہے وہ نوبل پرائز اور بے نظیر بھٹو ایوارڈبرائے جمہوریت لینے کے باوجود ان لرزہ خیزواقعات پر خاموش کیوںہے؟ دُنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں، اور امن کے ٹھیکیداروں کو چاہئے کہ سب مل کر آنگ سان سوچی کو اِس صورت حال پربیان دینے کا کہیں کیونکہ میانمارکے مسلمان اُس کے بیان کے منتظرہیں ،میانمار کی حکومت سے بربریت سے باز رہنے کا مطالبہ کریں اور اگر یہ مطالبہ نہ مانا جائے تو میانمار کے نہتے مسلمانوں کی مدد کیلئے وہاں اپنی افواج بھیجیں، کیونکہ میانمار کے مسلمان چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں۔
کہاں ہے ارضِ پاک کا مالک
کہ چاہتوں کی رگیں کُریدے
ہوس کی سرخی رُخِ بشر کا
حُسین غازا بنی ہوئی ہے
کوئی مسیحا اِدھر بھی آئے
کوئی تو چارہ گری کو اُترے
اُفق کا چہرہ لہو میں تر ہے
زمیں جنازہ بنی ہوئی ہے

تازہ ترین