• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گوتم بدھ نے انسانوں کو امن اور عدم تشدد کی تلقین کی۔ آپ نے ہر ذی نفس کا خیال رکھنے کو کہا۔ آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والے بعض بھکشو اس بات کا خیال بھی رکھتے تھے کہ زمین پر رینگنے والا کوئی کیڑا بھی ان کے پیروں تلے نہ آجائے۔ کہتے ہیں کہ کبھی کوئی چیونٹی انجانے میں بھی ایسے کسی بھکشو کے قدموں تلے آجاتی تو وہ بہت شرمندگی محسوس کرتا تھا۔ بدھ مذہب میں جانور کے شکار سے بھی منع کیا گیا ہے۔ بدھ مت کے ماننے والے عموماً تشدد کے گریز کرنے والے اور پرامن لوگ سمجھے جاتے ہیں لیکن جب انسانوں کے کسی گروہ میں خود غرضی، نسلی یا لسانی تعصب اور سفاکیت کے جذبات غلبہ پالیتے ہیں تو اعلیٰ اخلاقی تعلیمات فراموش کردی جاتی ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بودھوں کی جانب سے معصوم اور نہتے انسانوں پر بدترین تشدد اور سفاکیوں کے افسوسناک مشاہدے ہوئے ہیں۔ ماضی سے ایک مثال بودھوں کے اکثریتی ملک جاپان کی ہے۔ چین جاپان جنگ 1937-1939کے دوران پیش قدمی کرتے ہوئے جاپانی فوجیوں نے اپنے مفتوحہ علاقوں میں سفاکی اور بربریت کے ہولناک مظاہرے کیے۔ چین کے خلاف ایک جنگ کے دوران جاپانی فوجیوں نے چینی شہر نین کنگ کی فتح کے بعد شہر کو لوٹا، عورتوں کی بے حرمتی کی اور تین لاکھ کے قریب سویلین کو قتل کیا۔ 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کی جانب سے ایٹمی حملوں کے بعد جاپان نے اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں کیں اور امن اور حقوقِ انسانی کے احترام کا راستہ اپنالیا۔ اب جاپانی دنیا بھر میں ایک امن پسند قوم کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔
دنیا میں بودھوں کا ایک اکثریتی ملک برما (میانمار) ہے۔ یہاں تقریباً نوے فیصد آبادی بودھوں پر مشتمل ہے۔ میانمار بدھ مذہب کا ایک بڑا مرکز ہے۔ بدھ مذہبی عالموں کی سب سے بڑی تعداد میانمار میں آباد ہے۔ دنیا بھر میں لوگوں کو امن کا درس دینے والے بدھ اپنے اکثریتی ملک برما میں صدیوں سے آباد ایک چھوٹی سی اقلیت کے لیے قہر اور موت کا پیغام بنے ہوئے ہیں۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت برما پر بھی تھی۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزولی اور برطانوی فوجی دستے کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد برما میں قید رکھا گیا۔ صدیوں سے برِصغیر کے مختلف خطوں سے لوگ برما جاکر آباد ہوتے رہے۔ برمی بودھوں نے دیگر آنے والوں کو تو کچھ نہیںکہا لیکن اراکان میں آباد لوگوں کو جن میں ہندو بھی شامل ہیں اور اکثریت مسلمانوں کی ہے، قانونی طور پر مہاجر یا برمی شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ دوسری عالمی جنگ میں برما کے بدھ اپنے ہم مذہب ملک جاپان کی حمایت کررہے تھے۔ اراکان کے رہنے والے اس جنگ میں برٹش آرمی کے حمایتی تھے۔ برِصغیر میں انگریز کی حکومت ختم ہوئی تو برما بھی برٹش عملداری سے باہر آگیا۔ اس دوران اراکانی مسلمانوں نے اپنی خودمختاری کی ناکام کوششیں بھی کیں۔
اراکانی یا روہنگیا مسلمان دنیا کی مظلوم ترین دھتکاری ہوئی اقلیت یا ایک بے وطن قوم ہیں۔ روہنگیا مسلمان پناہ کے لیے برما سے متصل ملک بنگلہ دیش کی طرف جاتے ہیں لیکن بنگلہ دیشی فوج یا پولیس بھی ان کا استقبال موت یا مصائب کا پیغام لائی گولیوں سے کرتی ہے۔ بہرحال تقریباً پچاس ہزار روہنگیا مسلمان کسی نہ کسی طرح بنگلہ دیش پہنچنے میں کامیاب ہوگئے لیکن وہاں وہ ہر قسم کے حقوق سے محروم انتہائی غیر انسانی حالات میں رہ رہے ہیں۔
برما کی سرحد پانچ ممالک بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، لاؤس اور چین سے ملتی ہے۔ اراکانی مسلمانوں نے بنگلہ دیش کے علاوہ ان سرحدی ممالک کی طرف بھی ہجرت کی۔ بھارت میں تقریباً چالیس ہزار اراکانی یا روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں۔ بھارتی حکومت ان بے گھر اور بے وطن انسانوں کو مہاجر کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ 14اگست 2017ء کو بھارتی حکومت نے اعلان کیا کہ ان سب روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارت سے ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔ اقوامِ متحدہ کا کمیشن برائے مہاجرین اب تک تقریباً سولہ ہزار برمی مہاجرین کو رجسٹریشن کارڈ جاری کرچکا ہے لیکن بھارتی حکومت اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کی جانب سے کی گئی رجسٹریشن کو بھی تسلیم نہیں کررہی۔ پیر یکم ستمبر کو بھارتی سپریم کورٹ نے اس مسئلے پر ایک درخواست سماعت کے لیے قبول کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے 14ستمبر کو جواب طلب کیا ہے۔
برما کی فوج اور بودھ سویلین کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر حملے اور انہیں ملک بدر کرنے کے عزائم خالصتاً ایک انسانی مسئلہ ہے۔ دنیا کے ہر ملک خصوصاًمسلمان ملکوں کو لاکھوں روہنگیا مسلمانوں پر 1960ء سے وقفے وقفے سے جاری رہنے والے شدید مظالم کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ عالمی قوانین کے تحت ہنگامی حالات میں ایک ملک سے دوسرے ملک کی جانب نقل مکانی کو روکا نہیں جاسکتا۔ اس قانون کے تحت جنگ سے تباہ حال ملک شام سے لاکھوں سویلین ہجرت کرکے یورپ کی طرف گئے۔ یورپی ممالک نے ان مہاجرین کو قبول کیا۔ جرمنی نے سب سے بڑی تعداد میں شامی مہاجرین کو اپنے ہاں سکونت دینے کا اعلان کیا۔ برما کے روہنگیا مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ برما کی حکومت انہیں اپنے ملک میں شہری یا بطور مہاجر بھی رہائش کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان میں برما سے براستہ بنگلادیش و بھارت آنے والے اراکانی مسلمان تقریباً ایک لاکھ کی تعداد میں آباد ہیں۔ ان میں سے اکثر کو پاکستانی شہریت دے دی گئی ہے۔ اراکانی یا روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کا مظاہرہ دنیا بھر میں صرف پاکستان کی جانب سے ہوا ہے۔
روہنگیا کے مسلمانوں پر جو قیامت ٹوٹ رہی ہے اس پر پاکستانی رائے عامہ کا ردِ عمل بجا ہے لیکن خارجہ معاملات اور بین الاقوامی امور میں کسی غیر ملک میں پائی جانے والی عوامی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اصل اہمیت حکومتی موقف کی ہوتی ہے۔ روہنگیا کے مسلمانوں پر برما میں غیر انسانی سلوک روکنے اور برما کے سرحدی ممالک پر ان بے وطنوں کو پناہ دینے کے لیے اسلامی ممالک کی حکومتوں کو اپنا کردار پورے طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔ یہ درست ہے کہ ملکوں کے درمیان تعلقات اور کئی معاملات کسی ملک کے اپنے مفادات یا مصلحتوں کے تحت ہوتے ہیں لیکن انسانی المیوں پر خاموش رہنا سفارتی تقاضا نہیں بلکہ مفاد پرستی اور بے حسی کا اظہار ہے۔ معروف ناول نگار ڈین براؤن نے اپنے ناول انفرنو میں چودہویں صدی عیسوی کے اطالوی مفکر و شاعر دانتے الیگیری کا ایک قول نقل کیا ہے۔
The darkest places in hell are reserved for those who maintain their neutrality in times of moral crisis. [Dan Brown, INFERNO]
’’جہنم کے تاریک ترین مقامات اُن لوگوں کے لیے مخصوص ہیں جو اخلاقی بحران کے وقت بھی اپنی غیر جانبداری پر قائم رہتے ہیں۔ ‘‘
افسوس کہ اتنے بڑے انسانی المیے پر چند ایک کے سوا سب اسلامی حکومتوں نے لا تعلقی اور خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اگر اسلامی ممالک اس معاملے کو انسانی حوالوں سے ٹھیک طرح اُجاگر کریں تو عالمی طاقتوں اور اقوامِ متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنے پر تیار کرسکتے ہیں۔

تازہ ترین