• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیر کے رستے پر چلنے والی ہستیوں کا فیض کسی ایک مذہب یا خطے تک محدود نہیں رہتا وہ تمام انسانیت کا اثاثہ بن جاتا ہے۔ لوگ بغیر کسی تعصب اور تفریق کے ان کی حیات، خیالات اور عمل سے متاثر ہو کر انہیں اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں۔ سقراط کو سچ اور خیر کی علامت ظاہر کرتے ہوئے کبھی ہم نے اس کے ملک اور مذہب کا حوالہ نہیں دیا بلکہ انسان ہونے کے ناطے اس سے اپنا تعلق جوڑتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ پوری دنیا کے دانش وروں نے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مبارکہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے انہیں سب سے افضل گردانا۔ جبلّی حوالے سے انسان سرکش، بے رحم اور خود غرض مخلوق ہے کیوں کہ بنیادی طور پر وہ بھی حیوان ہے اور حیوانیت کی ساری خصوصیات اس کے وجود میں پنہاں ہیں۔ اسے عقل سے سرفراز کر کے فوقیت دی گئی مگر وقت نے ثابت کیا کہ اس نے عقل کی بجائے جبلت کی زیادہ پیروی کی ہے اسی لئے قبل مسیح سے لے کر آج تک کی تاریخ کے ورق مختلف قسم کے مظالم سے لہولہان ہیں۔ اس نے بدلتے زمانے کے ساتھ ظلم کے نئے انداز دریافت کئے اور تہذیب کے پیرہن میں حیوانیت کو چھپا کر وار کیا۔ آج اس کے بٹوے میں بہت سی ڈگریاں، اعزازات اور ایجادات ہونے کے باوجود اس کے اندر کا حیوان اسی طرح سرگرمِ عمل ہے۔ جہاں وہ زندگی کو آسان بنانے والی چیزیں ایجاد کرتا ہے، لاعلاج بیماریوں کے لئے مؤثر دوائیاں تلاش کرتا ہے وہیں زندگی کو ایک پل میں ختم کرنے والے ہتھیار بھی بناتا ہے یعنی تعمیر اور تخریب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ ہتھیار بظاہر وہ معاشرے کا سکون تباہ کرنے والی اور آزادی کو مصلوب کرنے والی سرکش قوتوں کے سدّ باب کے لئے بناتا ہے مگر آج تک ان کا استعمال کمزوروں اور بے بسوں پر ہوتا آیا ہے۔ انسان کے انسان پر ظلم و جبر کی لرزہ خیز داستانیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ صدیوں کے سفر کے بعد بھی غاروں والے دور میں زندہ ہے۔ ہاں وہ جو عقلی اور روحانی قوتوں کو بروئے کار لا کر زندگی بسر کرتے ہیں صالح انسان کہلاتے ہیں لیکن اکثریت کسی نہ کسی حوالے سے نفس کے متکبرانہ بہلاوے میں آ کر شر کا آلۂ کار بن جاتی ہے۔ معاشروں میں نیکی بدی اور خیر و شر کے درمیان توازن رکھنے کے لئے نبیوں کے علاوہ ہر دور میں قدرت کی طرف سے دنیا میں ایسے نیک بندے بھیجے جاتے رہے ہیں جو اپنے وقت کے مطابق اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیں۔ گوتم بدھ بھی ایک ایسی ہستی ہے جس کے اقوال اور ذات کی پاکیزگی کی ایک دنیا نے گواہی دی۔ ہر ملک اور زبان میں لکھے جانے والے ادب میں اس کا کہیں نہ کہیں تذکرہ موجود ہے۔ گوتم بدھ کو بنیادی طور پر ایک ایسی ہستی مانا جاتا ہے جس نے جسم سے مادیت کا خول اتارنے اور دل کو نفس کی آلائشوں سے پاک کرنے کے لئے طویل ریاضت کی۔ مسرت، دکھ اور خواہش سے بے نیازی اختیار کی۔ آج اسی گوتم بدھ کے پیروکار غلبہ حاصل کرنے کی خواہش اور دوسروں کو اذیتیں دے کر مسرت حاصل کرنے میں مگن ہیں۔ عید پر تمام اسلامی ممالک نے جانوروں کی قربانی کی لیکن طاقت اور تعصب کے نشے میں چور میانمار کی انسان نما مخلوق نے نہتے بچوں، عورتوں، مردوں اور بزرگوں کی اس قدر تذلیل کی، اتنے زخم دیئے، اتنی اذیت سے موت کے گھاٹ اتارا کہ لوگوں کی اکثریت خطرناک سفر کر کے ہمسایہ ممالک ہجرت پر مجبور ہوئی۔ وہ بچے جو ظلم کے ہاتھوں محفوظ رہے انہیں سمندر نے نگل لیا۔ کتنی حیرت کی بات ہے 1937ء تک برصغیر کا حصہ رہنے والا میانمار کا موسم اتنا وحشی ہو چکا ہے کہ اس کا ضمیر ملامت کرنے سے بھی گریز کرنے لگا ہے۔ 1948ء سے وہاں مقیم ان خانہ بدوش قبائل کو ابھی تک نہ میانمار کی شہریت دی گئی نہ ووٹ کا حق۔ باقی بنیادی حقوق بھی مصلوب مگر وہ تو صرف زندہ رہنے کا حق مانگ رہے تھے جسے نامنظور کرتے ہوئے فوج اور پرتشدد گروہوں نے مشترکہ کارروائی کی۔ ایک عرصے سے یہ گھنائونا فعل جاری ہے۔ عالمی ضمیر جو کسی غریب ملک کے ایک چھوٹے سے واقعے سے سیخ پا ہو جاتا ہے اسے اتنے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی نظر تو آتی ہے مگر وہ اسے اہمیت نہیں دیتا کیوں کہ اب انسانیت کی توقیر اور زندگی کی بقا مقصد نہیں بلکہ مفادات کی دوڑ ہے ورنہ چین، روس اور امریکہ جیسے ممالک جو پاکستان کو ان تنظیموں کی وجہ سے دھمکا سکتے ہیں جو خود اس کے لئے وبالِ جان ہیں۔ اگر ایک دفعہ سخت زبان سے انہیں خبردار کریں تو ان کی کیا جرأت مگر کیا کریں۔ تجارتی لین دین آڑے آتا ہے۔ پانچ کروڑ کی آبادی والے ملک نے پانچ لاکھ کی فوج کے لئے بے شمار اسلحہ انہی ممالک سے خریدنا ہے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ جس ملک میں ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے اس کی حکمران ایک عورت ہے، جو بنیادی طور پر ماں ہے، زندگی کو جنم دیتی ہے، پروان چڑھاتی ہے اور اس کی حفاظت کے لئے ہر مشکل کے سامنے ڈٹ جاتی ہے اسے جمہوریت کی بحالی پر نوبل انعام بھی مل چکا ہے۔ چھوٹے موٹے دکاندار ہم بھی ہیں سو اس تعلق کو مستحکم کرنے کے لئے گزشتہ حکومت نے بھی انہیں ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا۔ یہاں بات مسلمان کی نہیں انسان کی ہے۔ ہم انسان کی بات کرتے ہیں مگر ترقی یافتہ قومیں مسلمانوں کے استحصال کو انسان کا استحصال قرار دینے سے گریزاں ہیں۔ انہیں برما، کشمیر، فلسطین میں جبر نظر نہیں آتا۔ وہ مختلف وجوہات پیدا کر کے اچھے خاصے پرامن، خوشحال اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتے افغانستان، لیبیا، یمن، عراق، صومالیہ اور شام کو مفادات کی ہوس کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے تباہ کر چکے۔ اب ان کی نظریں پاکستان، ایران، مصر اور قطر پر ہیں۔ ترکی نے ایک قوم ہونے کا مظاہرہ کیا۔ جب مشرف نے ہاتھ باندھ کر اپنی زمین استعمال کرنے کی اجازت دی ترکی نے پارلیمنٹ کے ذریعے انکار کر دیا۔ آج بھی ترکی ہی برما کی مدد کے لئے آگے بڑھا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان حکومت تو ایک طرف پاکستان کے مخیر حضرات بنگلہ دیش میں پناہ گزین برمی باشندوں کی مدد کے لئے آواز بلند کر چکے ہیں۔ سوشل میڈیا نے تواتر سے برما کے معاملات کی تشہیر کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ کبھی التجا، کبھی دعا اور کبھی طنز کے ذریعے وہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ برما کی حکومت پوری دنیا سے دشمنی مول لے کر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس لئے پوری دنیا کی انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کو فعال کردار ادا کرتے ہوئے اپنا اپنا احتجاج ریکارڈ کرانا ہو گا۔ اگر ہم ظلم پر خاموش رہے تو ہمارا شمار بھی ظالموں کا ساتھ دینے والوں میں ہو گا۔
دن سے آگے رات سے آگے
کیا ہے موت حیات سے آگے
کیا ہے پوچھیں گوتم بدھ سے
غم کے بعد، نجات سے آگے

تازہ ترین