• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

القاعدہ کی محترمہ بے نظیر کو قتل کرنے کی مسلسل کوششیں افسوسناک اور ناقابل تردید حقائق کا سلسلہ

محترمہ بے نظیر بھٹو لبرل پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت کے خلاف ملک کے اندر اور باہر دائیں بازو کی قوتوں کی گہری دشمنی کا شکار ہوئیں۔ جنرل ضیا حکومت گرانے کے بعد اقتدارپر براجمان ہوگئے اور اپنی آمرانہ حکومت کے ذریعے ان کا صرف ایک ہی ایجنڈا تھا کہ پارٹی اور اس کی قیادت کو تباہ کیا جائے اور ان کی جانب سے ملک میں اسلامی اصلاحات متعارف کرائےجانے کی کوشش کا مقصد بنیادی طورپر پیپلزپارٹی کے خلاف مذہبی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا تھا۔ فوجی آمر ضیا الحق کی سرپرستی کی وجہ سے قدامت پرست دائیں بازوکے مذہبی گروپوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا،دولت اور طاقت کا چسکا پڑا لہٰذا انہوں نےمعاشرے میں اسلام کے ایک فرقے کو نافذ کرنےکے واضح ایجنڈےکے ساتھ نفوذ کیا۔ ضیاالحق نے ان مذہبی گروپوں کی مدد سے پارٹی کی قیادت اس پروپگنڈےسے بدنام کیا کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اسلام مخالف ہے اور اس کے نعرے ’’روٹی کپڑااور مکان‘‘ کو غیراسلامی اور مغرب پرست قرار دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ پیپلزپارٹی پاکستان کے ہر شہری خاص طورپر خواتین کو بااختیاربنانےکے نظریات رکھتی ہے۔ بے نظیر بھٹوکے خلاف مذہبی جنونیوں کو ہر سطح پرپروپگنڈےکے ذریعے مشتعل کیا گیا۔ مجھے یادہے کہ جب میں ڈائریکٹر ایف آئی اے تھا توبے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کی کوشش کے معاملے کی تحقیقات کر رہا تھااور تحقیقات کے دوران مجھےپتہ چلا کہ سازش کرنےوالےنےکراچی میں بےنظیر بھٹو کی جان لینے کی پہلی کوشش میں یہ بیان کیاتھا کہ القاعدہ کی قیادت محترمہ بے نظیر بھٹوکے خلاف ہے کیونکہ ’’وہ خاتون ہیں اور انہیں اسلامی ملک پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے؛ وہ شیعہ ہیں اور مغرب پرست ہیں۔‘‘بعد میں 27اکتوبر 2007کے واقعے کے ایک ملزم سے جے آئی ٹی کےایک رکن نے جیل کے اندر تفتیش کی تھی تو اس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنےکے جوازمیں انہیں نظریات کا اعادہ کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی عسکریت پسند محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کے کس قدر خلاف رہے ہیں۔ میںنے اپنی ٹیم کے ہمراہ یوسف رمزی سے تفتیش کی تھی جس نے بیان دیا اور فخریہ طورپر کہا کہ یہ سچ ہے کہ ’’ہم بی بی کو ختم کرنا چاہتےتھے۔‘‘اس نے لائٹ ہاؤس کے نزدیک فلیٹ میں ان کےلیے ایک بم تیار کیا تھا۔ یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو آخری افسوسناک واقعےسے قبل مسلسل دہشت گردوں کا ہدف رہی تھیں۔ ان کی جان لینے کی کوششیں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتی ہیں کہ القاعدہ / ذاتی مفادات رکھنے والے ان کو اس وقت سے ختم کرنےپرتلے ہوئےتھے جب سے وہ پاکستان کے سیاسی افق پر ابھری تھیں۔ ان کی جان لینے کی کوششوں کی مختصر روداد مندرجہ ذیل میں بیان کی جارہی ہے تاکہ القاعدہ اور اس سے وابستہ تنظیموں اور مخالف عناصر کی ذہنیت کو سمجھا جاسکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوپر پہلے قاتلانہ حملے کی کوشش995 بلاول ہاؤس کے نزدیک ہوئی۔ پنجگور بلوچستان کے رہائشی ابو طلحہ کے گھر سے فضل اللہ حامدی کو اس وقت کی فرنٹیئر پولیس نے دہشت گردوں سے رابطے پر گرفتار کیا، اس کا انکشاف یوسف رمزی نے کیا تھا۔ 1993 کے الیکشن سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنےکےلیےکیپٹن عبدالحاکم اور دیگر نے منصوبہ بنایا تھا۔ منصوبے کے مطابق بلاول ہاؤس کے نزدیک گٹر میں بم نصب کرنے کا منصوبہ تھا۔ تاہم اس پر عمل نہیں ہوسکا کیو نکہ یوسف رمزی کراچی میں اپنے فلیٹ میں بم بناتے ہوئے زخمی ہوگیا۔ نتیجے کے طور پریوسف رمزی جعلی نام سے اسپتال میں زیر علاج رہا اور اس سے قبل کہ پولیس اس تک پہنچتی وہ اسپتال سے فارغ ہوگیا۔ قاتلانہ حملے کی دوسری کوشش 1993 میں کی گئی۔ اس کے بعد سپاہ صحابہ کے ایک سرگرم کارکن عبدالشکور کو جو یوسف رمزی کا قریبی ساتھی تھا پشاور پولیس نے گرفتار کیا، وہ ٹرین سے ہتھیار لے کر کراچی جا رہا تھا، اس نے تصدیق کی کہ رمزی یوسف، کیپٹن عبدالحاکم، منیر ابراہیم اور اس نے دو قاتلانہ حملے کرنے کی سازش اور منصوبہ بندی کی تھی۔عبدالشکور کے مطابق اسامہ بن لادن نے اس مقصد کےلیے مذہبی جماعتوں کو بہت پیسہ دیا تھا۔ منیر ابراہیم، اسامہ بن لادن کی طرف سے رقم ادا کیا کرتا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پر تیسرا قاتلانہ حملے کرنے کی کوشش 18 اکتوبر 2007 میں اس وقت کی گئی جب وہ آنےوالے عام انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرنےکےلیےدبئی سے کراچی پہنچیں اورمزار قائد کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ ان کے ٹرک کے بالکل قریب دو طاقتوربم پھٹے، میں وہاں موجود تھا اور بمشکل ہی بچ پایا لیکن کچھ بال جل گئے اور آگ سے زخم آئے۔ اس حملے میں وہ خوش قسمتی سے محفوظ رہیں لیکن ان کے سیکڑوں حامی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جائے وقوعہ کو دھو دیا گیا اور ایف آئی آر متاثرین کی جانب سے نہیں بلکہ ریاست کی جانب سے بمشکل درج کی گئی۔ محترمہ بےنظیر بھٹو کے ایف آئی آر درج کرانے کے بنیادی حق کو سلب کیا گیا۔ یہ حملہ بیت اللہ محسود کی دھمکی کا تسلسل تھا، اس نے کہا تھا کہ محترمہ کا بم کے ہاروں سے استقبال کیا جائے گا۔ یہ ایک پبلک ریکارڈکا معاملہ ہے۔ فاٹاسے محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر بیت اللہ محسود کے اس بیان کے گواہ ہیں۔18 اکتوبر 2007 کو جلوس میں شامل ہونے میں کامیاب ہونے کے بعد دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو پر ایک اور قاتلانہ حملہ کیا۔ 12 دسمبر 2007 کو ایک دہشت گرد پبی میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے جمع ہونے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی گاڑی کو چھونے میں کامیاب رہا۔ انہوں نے نوٹ کر لیا کہ عوامی اجتماعات کے بعد سیکورٹی نرم ہوجاتی ہے اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہمیشہ کارکنوں کو ہاتھ ہلانےکےلیے گاڑی کے سن روف سے باہر آجاتی ہیں۔ اس کے بعد دہشت گرد گروپوں کی سیل فون ڈیٹا کے تجزیے سے نقل و حرکت ٹریک کرنے سے یہ اشارہ ملا کہ عباد الرحمن جو ایک سخت گیر عسکریت پسند تھا، وہ اس روز نوشہرہ میں موجود تھا اور یہ شخص 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد میں ملوث پایا گیا۔ یہی دہشت گرد گروپ محترمہ بےنظیر بھٹو کا تعاقب کرتا رہا اور اس نے 26 دسمبر 2007 کو ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور میں ان پر قاتلانہ حملہ کرنے کی منصوبہ بندی اور سازش کی۔ میں محترمہ کے ساتھ موجود تھا جب ایک پولیس افسر نے ہمیں بتایا کہ ایک بمبار کو جیکٹ کے ساتھ دیکھا گیا ہے جو محترمہ بے نظیر کو دھماکے سے اڑانا چاہتا ہے۔ میں اس پر صوبے کی پولیس سے رپورٹ کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم نے اس پر کام کیا اور اپنے دور حکومت میں ہمیں پتہ چلا کہ عبداللہ سعید، بلال اور اکرام اللہ خودکش بمبار تھے، نصراللہ دارالعلوم حقانیہ کا طالب علم دو دیگر کے ہمراہ ان کا ہنڈلر تھا۔ منصوبے پر سخت سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے عمل نہیں ہوسکا۔ پشاور میں ایک ایس پی اور چار ڈی ایس پیز کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے تحفظ کےلیے تعینات کیا گیا تھا جبکہ 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں صرف ایک اے ایس پی تعینات تھا۔ کئی بار کی ناکام کوششوںکے بعد دہشت گرد بالآخر27 دسمبر 2007 کو بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انتہائی مربوط اور منظم طریقے سے تین گولیاں چلائی گئیں اور پھر بے نظیر بھٹو کی گاڑی کے قریب خودکش بم دھماکا کیا گیا ، نتیجتاً وہ سر پر لگنے والے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسیں۔ اس موقع پر 23 پارٹی کارکنان جاں بحق اور 70 زخمی ہوئے۔ اس واردات میں عبدالرحمان کی قیادت میں بلال شاہ ( جس نے خود کو دھماکے سے اڑایا) اور اکرام بمبار بے نظیر کے قتل میں ملوث کلیدی کردار تھے۔ ایف آئی اے کی جانب سے تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ سازش مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے 5 سابق طلبا نادر، قاری اسماعیل، نصر اللہ، عبداللہ صدام اور فیض محمد نے اپنے ہوسٹل میں تیار کی۔ بعدازاں ان کی اسناد کی مدرسہ کے ریکارڈ سے توثیق بھی ہوگئی۔ بے نظیر کو قتل کرنے کی سازش میں بیت اللہ محسود کی جانب سے رقم اور خودکش بمبار فراہم کیا جانا بھی تحقیقات کا حصہ تھا۔ پولیس نے ملزمان حسنین گل اور محمد رفاقت حسین کو 5 جنوری 2008 کو گرفتار کیا، جنہوں نے مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیانات دیے کہ انہوں نے 26 دسمبر 2007 کو ڈائیوو ٹرمنل راولپنڈی سے ملزم نصر اللہ اور دو خودکش بمباروں بلال اور اکرام اللہ کو ساتھ لیا، انہیں رفاقت حسین کے گھر ٹھہرایا گیا۔ 27 دسمبر کو لیاقت باغ کی جاسوسی اور مخبری کی گئی اور دونوں خودکش حملہ آوروں کو جائے وقوع پہنچایا گیا ۔ اس کے بعد کال ریکارڈ اور آر بی ایس لوکیشن سے حسنین گل اور رفاقت حسین کے اعترافی بیانات کی توثیق ہوتی ہے ۔ سازش کا علم رکھنے کے الزام میں پولیس نے اعتزاز شاہ، سیف اللہ، شیر زمان، راشد احمد اور عبدالرحیم ترابی کو بھی گرفتار کیا۔ منصوبے کی سازش تیار کرنے کے الزام میں پولیس نے 6 ملزمان کو اشتہاری قرار دیا جو فاٹا میں سیکورٹی فورسز سے مقابلے یا ڈرون حملوں میں مارے گئے۔ مدرسہ حقانیہ کا سابق طالبعلم عباد الرحمان جس نے ملزم نصر اللہ کے ذریعہ ملزمان حسنین گل اور رفاقت حسین کو خودکش حملہ آور فراہم کئے تھے، 13 مئی 2010 کو تیراہ خیبر ایجنسی میں ڈرون حملے میں مارا گیا جس میں غیر ملکیوں سمیت 14 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خیبر ایجنسی میں واحد ڈرون حملہ تھا۔ مدرسہ حقانیہ کا ایک اور سابق طالبعلم عبداللہ صدام جو منصوبہ بندی میں ملوث، نادر اور قاری اسماعیل سمیت خودکش حملہ آور بیت اللہ محسود سے حاصل کئے ، خودکش جیکیٹس منتقل کیں، وہ 31 مئی 2008 اور 15 جنوری 2008 کو مہمند ایجنسی میں مارےگئے۔ اسی طرح مدرسہ حقانیہ ہی کا نصر اللہ احمد جو راولپنڈی میں ترجمان تھا ، وہ بیت اللہ محسود سے دو خودکش حملہ آوروں سعید بلال اور اکرام اللہ کو جائے وقوعہ کے پیشگی معائنے کیلئے لے گیا تھا، 15 جنوری 2008 کو مہمند ایجنسی ہی میں مارا گیا۔ دیگر دو اشتہاری فیض محمد کسکٹ ( سابق طالبعلم مدرسہ حقانیہ ) اور اکرام اللہ تاہم لگتا ہے کرہ ارض سے ہی غائب ہوگئے۔ مذکورہ بالا واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بے نظیر بھٹو کا القاعدہ ا، اس سے وابستہ گروہوں اور ملک کے دیگر انتہا پسند مذہبی گروہوں نے مسلسل پیچھا کیا۔ ان گروہوں کو ضیاء الحق کے پٹھوئوں کی سرپرستی حاصل تھی۔ ضیاء الحق کے ایک نظریاتی شاگرد نواز شریف، بے نظیر بھٹو کے سیاسی نہیں بلکہ ذاتی طور پر کٹر دشمن رہے ۔ کسی منطق اور دلیل کے بغیر ایک گھنٹہ 40 منٹ بعد ہی جائے وقوعہ کو دھو ڈالنے سے اہم ثبوت اور شہادتیں اکٹھا کرنے کا موقع ضائع ہوگیا ، اس کے علاوہ سیکورٹی دستہ واپس لینےسے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو اندرونی اور بیرونی حمایت حاصل تھی۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف کا مقدمہ کا سامنے کرنےسے گریز بھی بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کا قتل بھی مقدمے کو ناکام بنانے کی ایک اور کوشش تھی۔ یہ بات بڑی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اسے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے خاندان نے قتل کیا جہاں القاعدہ میں نمبر۔ دو خالد شیخ کو آئی بی نے بازیاب کیا اب وہ اپنے بھتیجے یوسف رمزی کے ساتھ امریکا میں قید بھگت رہا ہے ۔یو سف رمزی ہی نے کیپٹن عبدالحکیم کی مدد سے بے نظیر بھٹو کو پہلی بار قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1989 میں بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور وزیراعظم بننے کی خواہش میں نواز شریف نے اس کا ساتھ دیا۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف اس سے قبل ہی اسامہ بن لادن سے رابطے بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جنہوں نے بے نظیر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی خالد خواجہ مرحوم کے ذریعہ اس وعدے پر کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے گا مالی معاونت کی۔ 1988 میں اس وقت کے آئی ایس آئی سربراہ لیفٹننٹ جنرل ( ر) حمید گل نے بے نظیر کے خلاف دائیں بازو کا قدامت پرست اتحاد قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابتدا میں مولانا سمیع الحق کو آئی جے آئی کا سربراہ بنایا گیا لیکن بعد ازاں قیادت نواز شریف کو منتقل ہوگئی۔اسٹیبلشمنٹ نے پس منظر میں نواز شریف کو مکمل معاونت فراہم کی۔ اس طرح 1990 کے انتخابات میں نواز شریف کو بے نظیر کے خلاف مدد فراہم کی گئی۔ سوویت جنگ کے پس منظر میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ بے نظیر کے مخالف رہے۔ سپاہ صحابہ اور القاعدہ ایک دوسرے کے قریب آگئے جبکہ لشکر جھنگوی نے القاعدہ کے ساتھ مل کر ملک میں دہشت گرد کارروائیاں شروع کر دیں۔ بے نظیر بھٹو کا قتل القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی ان سے دشمنی کی انتہا تھی۔ محترمہ پر حملے کی منصوبہ بندی بیت اللہ محسود اور القاعدہ کے المصری نے میران شاہ میں تیار کی ۔ یہ تفصیلات ہیں کہ القاعدہ کے 5 ارکان نے اسے کس طرح سے عملی جامہ پہنایا، اس کی تصدیق تب ہوگئی جب مری میں حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں ملا منصور نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ۔ ناقابل تردید شہادتوں کے ساتھ تاریخ ان 5 دہشت گردوں کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تحقیقات اور شہادتوں کا ضیاع پارٹی اور نہ ہی پاکستان کے عوام کبھی قبول کریں گے ۔ حکومت پنجاب نے اس کیس کو تقریباً بند کر دیا تھا۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس نے کیس کو حکومت پنجاب سے لے کر مزید تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کو منتقل کیا تھا۔ یہ تحقیقات ایف آئی اے کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل طارق کھوسہ نے کی تھیں، بعد میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل خالد قریشی نے انہیں جاری رکھا۔ تفتیش میں شامل افسران جو نیک شہرت کے حامل تھے، انہوں نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ۔161 کے تحت میرا بیان ریکارڈ کیا ، اس کے علاوہ ناہید خان ، صفدر عباسی، فرحت اللہ بابر، جنرل توقیر، گاڑی کے ڈرائیورکے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے۔ بے نظیر بھٹو کے بلیک بیری کا معائنہ عبدالرزاق نے کیا۔ پرویز مشرف ، آن ڈیوٹی پولیس افسر، پنجاب جے آئی ٹی کے ارکان اور ملزم عباد الرحمنٰ کے سسرالیوں سے پوچھ گچھ کی، کال ریکارڈ ڈیٹا کا فورنسیک تجزیہ کیا، خودکش حملہ آور بلال کے سر کا ڈی این اے حاصل کیا۔ رفاقت کے گھر سے جوگرز اور کپڑے بازیاب کرائے، جو درحقیقت بلال کو لے کر آیا تھا۔ جسے نصر اللہ نے اکوڑہ خٹک سے راولپنڈی پہنچایا تھا۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ القاعدہ کی اولاد نے مقامی معاونت کے ساتھ بے نظیر بھٹو کو قتل کیا ، ہم پیپلز پارٹی کے کارکنان محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو پھانسی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے اور اس وقت تک جدوجہد جاری رہے گی ، بے شک یہ عناصر اب بھی طاقت ور ہیں، ان کے اقتدار کے ایوانوں میں تعلقات بھی ہیں لیکن وہ کب تک بچیں گے ؟ ریکارڈ پر شہادتیں نہ صرف ان کا پیچھا کریں گی بلکہ قدرت کا قانون اپنا انصاف کرے گا۔

تازہ ترین