• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یاد نہیں کس نے کہا تھا، شاید میں نے ہی کہا تھا کہ درندے سے انسان بننے کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔ آج کا انسان اندر سے ابھی تک درندہ ہے البتہ اس پر تہذیب کا ملمع چڑھا رکھا ہے۔ اس بات کی گواہی کے لئے اگر انسانی تاریخ کے ورق کھولے جائیں تو وحشیانہ جور اور بہیمانہ ستم کی داستانیں قطار باندھے کھڑی مل جائیں گی۔انسان نے انسان پر جتنے ظلم توڑے ہیں جو کوئی ان کو شمار کرنا چاہے گا، جلد ہی ہار مان لے گا۔ دیکھا جائے تو تاریخ کے منظروں میں گم ہوجانے والوں کا پسندیدہ مشغلہ قتل عام تھا۔ اس شوق سے گردن زدنی کرتے تھے اور اس چاؤ سے سروں کے مینار بناتے اور شہر کے شہر تہِ تیغ کرتے تھے کہ ویران بستیوں سے الّو تک چلے جاتے تھے۔ پھر وقت نے پہلو بدلے، ترقی اور شعور کا دور آیا۔ دنیا کھل گئی۔ سب کو ایک دوسرے کی خبر رہنے لگی۔ کچھ ڈھکا چھپا نہ رہا ۔مگر آستینوں میں چھپا چراغ جلتا ہی رہا۔ کبھی تاتاریوں نے ،کبھی نازیوں نے، کبھی یہودیوں نے اور کبھی عیسائیوں نے انسان پر ظلم ڈھائے۔سچ پوچھئے تو جسے بھی موقع ملا ، اس نے چمکتے دمکتے خنجروں کو تازہ تازہ لہو پلایا۔ سب نے سب کو مارا مگر اتنی طویل تاریخ میں بدھ مذہب ماننے والوں نے کبھی کسی کو نہیں مارا تھا۔گوتم نے دنیا کے وسیع علاقے کواپنے رنگ میں رنگا اور انسان کو اپنے اندر کھوکر خود کوپانے کا ایسا سبق پڑھایا جس میں دنیا سے دکھ مٹ جانے کی حکمت چھپی تھی۔ یہ تدبیر برسہا برس کارگر رہی۔ ہم نے بودھوں کو دیکھا۔ وہ تو اپنی ناک پر پھایا باندھتے تھے کہ کو ئی حقیر سا کیڑا بھی سانس میں جاکر مر نہ جائے۔ وہ پائے والی کھڑاؤں پہنتے تھے کہ کوئی چیونٹی پیروں تلے آکر کچلی نہ جائے۔ یہی بودھ نروان کا ایک عالم طاری ہونے کے بعد بھکشوبن جاتے تھے اور ہمارے شہر پشپ پور میں شام کو کشکول لے کر بھیک مانگنے نکلا کرتے تھے۔ پھر کیا ہوا کہ ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا، سروں پر قتل و غارت گری کا بھوت چڑھ بیٹھا۔ ہم نے زعفرانی لباس پہنے بودھ راہبوںکو جدید خود کار ہتھیاروں سے زمانے کی ٹھوکروں میں پڑے مظلوموں پر گولیاں برساتے دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ بودھ راہب اجاڑ بستیوں میں بسیرا کئے ہوئے نہتّے لوگوں کی بستیوں کو پھونک رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جب خنجر کام نہ آئے تو ان بودھوں نے خود نفرت کی آگ میں جھلس کر عورتوں اور بچّوں کو زندہ جلایا۔ یہ سب ہوا، ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔ حیرت اس لمحے ہوئی جب دیکھا کہ ظلم کی داستان رقم ہوتی رہی اور دنیا آنکھیں موندے بیٹھی رہی۔ میرا اشارہ برما میں آباد ان مسلمانوں کی طرف ہے جن کا ملک کی سرزمین سے صفایا کیا جارہا ہے۔ انہیں اگر مارا نہیں کیا جارہا ہے تو سرحد سے باہر دھکیلا جا رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں بچّے، عورتیں اور بوڑھے پا پیادہ چلتے ہوئے بنگلہ دیش کے علاقے میں داخل ہورہے ہیں اور بنگلہ دیش اس فکر میں ہے کہ یہ سیلابِ بلا کسی اَور کے گھر جائے۔ وہ عالم جسے عالم اسلام کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے، اتنے بڑے سانحے پر چپ سادھے ہوئے ہے اور کیوں نہ سادھے، خود وہ سو طرح کے عذابوں میں الجھا ہوا ہے۔ سوچئے کہ ایک ذر ا سے ملک مالدیپ نے جرات دکھائی اور برما سے تجارتی تعلقات توڑ لئے۔ ایک ہمارا ترکی نہ ہوتا تو کوئی ان برمی خاتون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہ دیکھتا جن کے لئے کبھی ہمارے دلوں میں کتنا نرم گوشہ تھا۔ آنگ سان سو چی اپنے عوام کا ووٹ لے کر ملک کی حکمراں بنی تھیں لیکن برمی فوج نے انہیں نکال باہر کیا اور ایک دنیا کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوگئیں ۔ ہم کتنے چاؤ سے کہا کرتے تھے کہ یہ دبلی پتلی خاتون کس کمال سے نام پیدا کر رہی ہے۔ ہم نے انہیں اپنا قومی اعزاز دیا ۔ یہاں تک کہ انہیں امن کا عالمی نوبل انعام ملا۔ ہم کتنے خوش تھے۔ مگر ہم کتنے نادان تھے۔ جب برما میں مسلمانوں پر برا وقت پڑا توانسانی حقوق کی علم بردار ان ہی آنگ سان سوچی نے ایسی نگاہیں پھیریں کہ خدا کی پناہ۔انہوں نے اپنے عقیدے اور سیاسی مسلک کی کینچلی اتاری اور وہ اندر سے ایک بے رحم اور سفّاک خاتون نکلیں۔ سنا ہے کہ برادر ملک ترکی نے بڑی کوشش کرکے آنگ سان سوچی کو اس بات پر رضا مند کرلیا ہے کہ ترکی کا بھیجا ہوا امدادی سامان برما کے بے خانماں مسلمانوں تک پہنچانے کی اجازت ہوگی۔
مجھے خوب یاد ہے ، جب میں کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ تھا، یہ سنہ ساٹھ کے ابتدائی برسوں کی بات ہے، جب مشرقی پاکستان ہمارے وطن کا اور ہماری جان کا ٹکڑا تھا، وہاں سے پی آئی اے کے طیاروں میں بیٹھ کر برمی مسلمانوں کے وفد مغربی پاکستان آیا کرتے تھے اور ایک ایک سے ملاقات کرکے حمایت اورہمدردی طلب کیا کرتے تھے۔ یہ لوگ ہر اخبار کے دفتر میں جاتے تھے اور اپنی حالت زار کہہ سناتے تھے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ظلم کا بند نہیں ٹوٹا تھا اور ستم کا ریلا ان مسلمانوں کو بہا لے جانے کے درپے نہیں تھا۔ لیکن ان لوگوں کی دانش مندی کا اعتراف کرنا ہو گا کہ انہوں نے آنے والے بھونچال کو بھانپ لیا تھا اور آج سے پچاس ساٹھ برس پہلے پاکستان کی حمایت اور سر پرستی مانگ رہے تھے۔ وہ تو خیر کیا ملتی، وہ شاخ ہی نہ رہی کہ جہاں آج کے حکمراں اس فکر میں ہیں کہ یہ برمی مسلمان کسی طرح وہیں برما میں جئیں او روہیں اپنے انجام کو پہنچیں۔
مجھے وہ پرانی خاموش فلم یاد آرہی ہے جو شاید دادا صاحب پھالکے نے بنائی تھی اور جو ساری کی ساری گوتم بدھ کی زندگی پر تھی۔ قارئین کو بھی یاد ہوگا کہ جب گوتم پیدا ہوئے تو جیوتشیوں نے خبر دار کیا تھا کہ شہزادے کی نگاہ کبھی دنیا میں ہونے والے ظلم پر نہ پڑے۔ اگر اس نے کسی کو غم زدہ یا مصیبت زدہ دیکھ لیا تو یہ دنیا کو تیاگ دے گا۔ شہزادہ بڑا ہوا تو اس نے دنیا دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ طے یہ پایا کہ شہر میں اس کا جلوس نکالا جائے گااور راہ میں کھڑے ہوئے سینکڑوں لوگوں کو حکم ہوگا کہ وہ پورے وقت ہنستے مسکراتے ر ہیں اور خبردار جو کوئی دکھی نظر آیا۔ جلوس نکلا۔ راہ میں پڑنے والے پودوں کے مرجھائے ہوئے پھول بھی توڑ دئیے۔ ہر شخص کھلکھلا رہا تھا کہ اچانک کہیں سے کوئی بڑے میاںلاٹھی ٹیکتے ہوئے نکل آئے۔ شہزادے نے اسے طلب کیا اور اس کا احوال پوچھا۔ اس نے اپنی ساری تکلیفیں ایک ہی سانس میں کہہ سنائیں۔ شہزادے نے یہ ذرا سے دکھ سن کرایک بڑا فیصلہ کیا اور ایک رات جب محل میں سب سوئے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے باہر نکل گیا اور کہیں دور ویرانے میں جاکر اپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش کرتے کرتے کسی ایسی ذات میں گم ہوگیا جس کی تعلیم ایک عالم میں پھیلنی تھی، سو پھیلی۔ بودھ عقیدے کی دھوم دور دور تک مچی اور آج بھی مچی ہوئی ہے۔ بس اس میں سے وہ وارفتگی نکلی جارہی ہے جس میں کھو کر گوتم بدھ نے خود کو پایا تھا۔بودھ پستکوں میں لکھا ہے کہ اس زمین پرمہاتما گوتم بدھ ایک بار پھر آئیں گے۔
اب یہ کہنے کو جی چاہتا ہے،مہاتما جی یہی وقت ہے لوٹ آنے کا، لوٹ آئیے۔ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔

تازہ ترین