• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنانے کے لئے کئی کہانیاں ہیں۔ اپنی بھی اور دنیا کی بھی جو سلگتی ہوئی سرخیوں کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن اس وقت ایک عجیب کیفیت سوچ اور اظہار کو کند کئے دے رہی ہے۔ ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ میں امریکہ میں پورے ایک مہینے کی چھٹیاں گزار کر واپس آیا ہوں۔میںنے کہا نا کہ سنانے کو بہت کچھ ہے تو یہ سچ ہے۔ سر فہرست مکمل سورج گرہن دیکھنے کا اچھوتا اور یاد گار تجربہ ہے۔ وہ میوزیکل ڈرامہ بھی دیکھ لیا جس نے دو سال سے زیادہ عرصے سے امریکہ میں دھوم مچا رکھی ہے۔ ٹرمپ کے امریکہ نے جو سوال اٹھائے ہیں ان کا اس ڈرامے سے ایک خاص تعلق ہے۔ ظاہر ہے میں ’’ہیملٹن‘‘ کی بات کررہا ہوں کہ جس میں جارج واشنگٹن اور امریکہ کی آزادی کی جنگ کے دوسرے رہنمائوں کا کردار سیاہ فام اداکاروں نے نبھایا ہے۔ یہ سب ہے اور جسے ’’جیٹ لیگ‘‘ کہتے ہیں وہ بھی ہے۔’جیٹ لیگ‘ کا سیدھا سادہ مطلب وہ تکان ہے جو طویل سفر سے پیدا ہوتی ہے اور سفر کی طوالت کے حساب سے کئی دن تک جاری رہتی ہے۔ اس کی بنیادی علامت یہ ہے کہ سونے ، جاگنے کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ سوچ کی بیداری بھی غنودگی کے جھونکوں سے متاثر رہتی ہے۔ میرا سفر کیونکہ پوری آدھی دنیا کا تھا تو یہ سمجھئے کہ اس سے زیادہ طویل فضائی سفر کی کسی کو ضرورت نہیں ۔ دبئی سے لاس اینجلس کا مسلسل سفر کوئی 16گھنٹے کا بنتا ہے۔ چند سو مسافروں کے ساتھ، اکانومی کلاس کی تنگی میں، اتنی لمبی بے زمینی، جاتے ہوئے بھی اور واپسی کے سفر میں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ان دنوں کیلی فورنیا اور پاکستان کے درمیان وقت کا پورے 12گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ یعنی گھڑی میں وقت بدلنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہاں شام تو وہاں صبح۔ ہمارا اگلا دن شروع ہوجاتا ہے اور ان کا پچھلا دن تمام نہیں ہوتا ۔ یوں ایک جگہ رہ کر دوسری جگہ سے رشتہ قائم رکھنے کے لئے وقت کی ہیر پھیر کو نظر میں رکھنا پڑتا ہے۔ یہ احساس بڑھ جاتا ہے کہ ملک اور علاقے اور افراد کیسے الگ الگ دنیائوں میں رہتے ہیں۔
’جیٹ لیگ‘ سے پیدا ہونے والی تکان اور بے خوابی ایک عارضی عارضہ ہوتا ہے۔ اسے آپ وقت کے ایک منطقے سے نکل کر دوسرے منطقے میں داخل ہونے کی سزا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں اپنے اندر ٹک ٹک کرتی گھڑی کا وقت بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ سونے جاگنے کا تعلق سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ہم سورج کے ساتھ ساتھ چلیں یعنی ہمارا رخ مغرب کی جانب ہو تو ’جیٹ لیگ‘ زیادہ شدید نہیں ہوتا۔ مغرب سے مشرق کی جانب کا سفر زیادہ مشکل ہے۔ سو یہ جو میں نے ایک ہی جست میں سورج کے سفر کے 12گھنٹے عبور کرلئے تو اس کا بوجھ تو برداشت کرنا پڑے گا۔ا ور وہ میں کررہا ہوں۔ لیکن اتنا جو ذکر میں نے ’جیٹ لیگ‘ کا کیا تو میں اپنی نیم غنودگی میں اسے ایک استعارہ سمجھتا ہوں وقت کے گزرنے اور بدلنے کا۔ میں نے مکمل سورج گرہن کا حوالہ دیا۔ میرا بہت جی چاہتا ہے کہ میں آپ کو بتائوں کہ اپنے خاندان کے ساتھ میں نے اسے کہاں دیکھا اور کیا محسوس کیا۔ لیکن تفصیل کی گنجائش اس کالم میں نہیں۔ اپنے گزشتہ کالم میں میں نے یہ تو بتایا تھا کہ امریکہ میں اس کا کتنا چرچا رہا۔ تاریخ میں کبھی کسی گرہن کا ایسا استقبال نہیں ہوا۔ حالانکہ سورج اور چاند گرہن تو اترسے ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں مکمل سورج گرہن کا اس طرح کا مظاہرہ 99سال بعد ہوا اس لئےاس 70میل چوڑی پٹی پر کہ جس پر مکمل گرہن دیکھا جاسکتا تھا لاکھوں افراد جمع تھے جو ملک کے دور دراز کے علاقوں سے وہاں پہنچے تھے۔ 24اگست کے اس آسمانی معجزے کو دیکھنے کے لئےخود ہم نے ایک ہزار میل کا سڑک کے راستے سفر کیا۔ اس سفر نامے کی بھی یہاں کوئی ضرورت نہیں کہ کب چلے کہاں کہاں رکے اور تین راتیں کہاں گزاریں۔ بس وہ دو منٹ اور چند سکینڈ کا وقفہ تھا کہ جو ایک دھڑکتی ہوئی یاد بن کر زندہ ہے۔ صبح کے دس بج چکے تھے جب چاند نے پوری طرح سورج کو ڈھانپ لیا اور بس ایک روشن لکیر کا دائرہ باقی رہ گیا۔ اچانک گہری شام نے ہمیں آغوش میں لے لیا۔ نیلے آسمان پر میں نے زہرہ کو چمکتے ہوئے دیکھا۔ درجہ حرارت تیزی سے گرتا محسوس ہوا۔ ایک عجیب سحر تھا جو اتنی جلدی ٹوٹ بھی گیا۔
یہ سب کیا تھا اور کیا اس آسمانی عجوبے میں دنیا کے لئےکوئی بھید بھرا پیغام بھی تھا؟ آپ جانتے ہیں کہ ستارہ شناس ہر گرہن کی ایک الگ تشریح کرتے ہیں۔ کئی نجومی اس مکمل سورج گرہن کو امریکہ کے صدر کے لئے انتہائی منحوس سمجھ رہے ہیں۔ بیشتر لوگ کسی نہ کسی حد تک توہم پرست تو ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اگر ہم اس وقت دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کو ستاروں کا کھیل نہ سمجھیں تو ہمارے لئےان کی توضیح کرنا زیادہ مشکل ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی قسمت میں کیا لکھا ہے اس سے شاید پوری دنیا کو دلچسپی ہو کیونکہ امریکہ ہر معاملہ میں ٹانگ اڑاتا ہے۔ اب یہ تو محض ایک اتفاق ہے کہ وہ مکمل سورج گرہن کے دن کی شام تھی جب ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں اپنا وہ بیان دیا جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو ایک انتہائی نازک مقام پر لاکھڑا کیا ہے۔ پتہ نہیں ہمارے نجومی پاکستان کا سورج گرہن سے کیا رشتہ قائم کررہے ہیں لیکن ٹرمپ کے بیان اور امریکہ کے نئے موقف کے اعلان کے بعد ’برکس‘ سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں بھی ہمارے لئے تشویش کا کافی سامان موجود ہے اور اہم بات یہ ہے کہ پانچ ممالک کی اس تنظیم میں ہمارا دوست چین بھی شامل ہے۔ ہمارے حکمران بھی یہ بات مان رہے ہیں کہ ہمارا ملک ایک مشکل میں ہے اور جس راستے پر ہم اب تک چلتے رہے ہیں اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔میرا دکھ یہ ہے کہ اس طرح کے خیالات کا اظہار ہر نازک موقع پر کیا جاتا رہا ہے اور اب تو سرخی یہ ہے کہ ’’اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا‘‘ لیکن قومی سمت کو درست کرنے کے لئے بنیادی تبدیلیوں کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ہم مسلسل گزرتے ہوئے وقت سے نباہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میں اپنے ’جیٹ لیگ‘ کی بات کررہاتھا کہ وقت کے ایک منطقے سے نکل کر دوسرے منطقے میں پہنچ کر ایک خاص تکلیف دہ کیفیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اجتماعی طورپر تاریخ کے ایک منطقے کو عبور کرکے ایک دوسرے منطقے میں قدم رکھنا بھی ایک کٹھن کام ہے۔ اگر کوئی طوفان ہمیں یہاں سے اٹھا کر پٹخ دے تو یہ دوسری بات ہے۔ یہ تو خیر ایک تمثیلی نکتہ ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ دنیا اس وقت طوفانوں کی زد میں ہے۔ وقت کی آندھی چل رہی ہے۔ میں امریکہ میں تھا جب ملک کا چوتھا بڑا شہر ہیوسٹن پانی میں ڈوب گیا۔ اب ایک اور انتہائی خوفناک طوفان غرب الہند کےکئی جزائر کو تاراج کرتا ہوا امریکی ریاست فلوریڈا کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیاست بھی بدل رہی ہے اور موسم بھی بدل رہا ہے۔ اور یہی وقت کی ہیرا پھیری ہے۔

تازہ ترین