• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Thar Colors Of Sand Going To Progress

تھر کا بنجر، بیابان اور تپتا صحرا اب ویسا نہیں رہا جیسا پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔ یہ زمین اب ملک کو 9 ارب ڈالر کا سرمایہ فراہم کرنے کی طاقت رکھتی ہے ۔ یہاں عورتیں کبھی میلوں پیدل چل کر صبح اور شام پانی ڈھوکر گھر لایا کرتی تھیں مگر اب پائپ لائنوں کے ذریعے پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

جہاں جانور بھوک اور پیاس سے مرجاتے تھے وہاں اب مور رقصاں ہیں۔ ان دنوں تو ویسے بھی تھر پر ٹوٹ کر مینہ برسا ہے جس نے ہر طرف ہریالی کو جنم دیا ہے۔ پپیہا اور دیگر چرندپرند میں زندگی کی رمق لوٹ آئی ہے۔

یہی سب دکھایا گیا ہے امرمحبوب کی دستاویزی فلم ’ریت کے رنگ ‘ میں جسے دیکھ کر آپ کو تھر کے بارے میں وہ حقیقتیں سننے کو ملیں گی جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہ سنی ہوں ۔

فلم گزشتہ ہفتے ’عثمان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘ کراچی میں نمائش کے لئے پیش کی گئی ۔ فلم کی خاص بات وہ اسکرپٹ اور اس کی تحقیق ہے جسے بننے اور لکھنے میں پانچ سال کی طویل مدت صرف ہوئی۔

اسکرپٹ ، ڈائریکشن اور وائس اوور امرمحبوب کی ہے جبکہ فلم کا میوزک صادق فقیر ،تھانوبیل اور دیگر نے کمپوز کیا ہے ۔

فلم میں انگریزی سب ٹائٹلز کا ترجمہ ہما احمر نے کیا ہے۔ فلم میں مختلف شعراء کا کلام بھی شامل کیا گیا ہے جن میں ن، م راشد، فیض احمد فیض ، ستیش گپتا اور مرزا غالب شامل ہیں ۔

فلم میں امر محبوب نے تھر کی ثقافتی ، جغرافیائی اور سماجی پس منظر کو بہت خو بصورتی سے اجاگر کیا ہے جبکہ موسیقی ،صوفیانہ کلام اور شاعری نے فلم کو ایک نئی روح عطا کی ہے ۔

فلم کا مقصد عوام کو صحرائے تھر سے متعلق آگاہی اور معلومات فراہم کرنا ہے ۔ امر محبوب نے نمائندہ ’’جنگ‘‘  سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ تھر کے بارے میں اکثر لوگوں کو منفی خبریں ہی پڑھنے کو ملتی ہیں ، مثبت انداز میں تھر کو کم ہی پورٹریٹ کیا جاتا ہے جبکہ ’ریت کے رنگ‘ میں میں نے وہ خوبصورت اور دلکش پہلو اجاگر کئے ہیں جو سچ ہیں لیکن لوگوں سے پوشیدہ ہیں۔ میرا فلم بنانے کا مقصد بھی یہی تھا۔ اب اس مقصد میں ، میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں یہ فیصلہ فلم بین ہی کرسکیں گے ۔ ‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’تھر واقعی بدل گیا ہے ۔ اگر آپ نے دس سال پہلے کا تھر دیکھا ہوتا تو آپ کو زیادہ جلدی یقین آجاتا کہ تھر میں اب سڑکیں بن گئی ہیں، یہاں سولر انرجی آگئی، پلانٹ لگ گئے، سیاحوں کی تعداد ہرسال بڑھ رہی ہے ۔ پہلے سیاحوں کے ٹھہرنےکے لئے کوئی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس تک نہیں ہوا کرتے تھے مگر اب نئے نئے ہوٹلز، ریسٹورینٹس اور گیسٹ ہاؤسز تعمیر ہوگئے ہیں۔ کمیونی کیشن میں آسانی ہوگئی ہے۔ موبائلز کے سنگلز آنے لگے ۔ لائٹ کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوگیا۔ گھر گھر پانی میسر ہورہا ہے ۔‘‘

امرمحبوب نےنمائندہ ’’جنگ‘‘ کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بتایا’’فلم کا مقصد سندھ کو ایکسپوز کرنا ہے ، دنیا بھر کو سندھ سے متعلق آگاہی دینا ہے۔ یہاں کی ثقافت بہت رچ ہے جبکہ معاشرتی زندگی بھی دلکش ہے ۔

تمام قوموں اور مختلف اقلیتوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔ بینکس یہاں کھل گئے ، ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی روش پڑرہی ہے ۔ معاشی حالات بہتر ہورہے ہیں ۔

یہی سب میں دنیا کے سامنے لانا چاہتاتھا۔ تھر کی خوبصورتی پر کالے پردے پڑھے ہوئے تھے میں ان پردوں کو ہٹا کر تھر کے دھنک رنگوں کو اجاگر کرنا چاہتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں یہاں سیاحت باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ حاصل کرلے جس سے عوام ، ملک اور حکومت تینوں کو فائدے پہنچے۔ ‘‘

 

تازہ ترین