• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انیس سو سینتالیس سے لیکر آج تک اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں کم از کم ایک بات پر ہمارے سارے حکمران ایک صفحہ پر نظر آئینگے کہ ہر بڑے واقعہ کے بعد یا سانحہ کے بعد سب یک زبان ہوکر کہتے ہیں کہ مٹی پاؤ اور آگے بڑھ جاؤ۔مٹی پاؤ فارمولے کا آغاز قائد کی وفات سے ہی ہوگیا تھا جب کسی نے بھی اُن کی وفات کے حقائق جاننے کے بجائے حقیقت کو قائد کے ساتھ ہی دفن کردیا تھا۔
‏‎ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابات میں شکست سے لیکر یحییٰ خان کے آرمی چیف بننے تک 1971کے سانحے سے لیکر سانحہ کارگل تک، اوجڑی کیمپ دھماکے سے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے تک،میمو گیٹ سے ڈان لیکس تک، سرے محل سے پانامہ لیکس تک، سپریم کورٹ پر حملے سے ڈوگر کورٹس تک،ریمنڈ ڈیوس سے ایبٹ آباد پر سی آئی اے کے حملے تک،ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل ٹوٹنے سے آرمی پبلک اسکول کے سانحہ تک، بارہ اکتوبر سے لیکر افتخار چوہدری کے قوم کو بیوقوف بنانے تک ، ضیاالحق کے دیئے گئے زخموں سے لیکر مشرف کے ذاتی فیصلوں تک، ایان علی سے ڈاکٹرعاصم تک، شرجیل میمن سے حامد سعید کاظمی تک، بے نظیر کی وصیت سے قطری خط تک، لیاقت علی خان سے بے نظیر کی شہادت تک اورمجیب الرحمٰن سے الطاف حسین تک کئی بار مٹی پاؤ کا عمل دہرا چکے ہیں۔
ہر بڑے واقعہ کے بعد ہم ان سنہری لفظوں سے آگے نہیں بڑھ پاتے کہ آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائیگا، ہم زندہ قوم ہیں ۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائیگی ، دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ جب قانون قارون کا تابع ہوجائے تو عوام الناس کے نصیب میں یہ ہی سب کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے نصیب میں ہے جو کچھ مردان میں ہوا وہاں قانون ہاتھ میں اسی لئے لیا گیا کہ عوام کا عدالتوں پر سے اعتبار ختم ہوتا جارہا ہے ملزم اور مجرم کا فرق ختم ہورہا ہے یہاں چوروں کی تاجپوشی اور مظلوموں کو سر عام رسوا کیا جاتا ہے ۔ ہم سب اپنے اپنے نشے میں آگے بڑھ رہے ہیں ہماری خودی نے اپنے اپنے خدا کھڑے کر لئے ہیں نہ جانے کب ہم اس خواب غفلت سے جاگیں گے۔ ذرا سوچئے کہ کس طرح نہال ہاشمی کے بیان کے بعد قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہوئی کیا اس کے بعد سپریم کورٹ کی ذمہ داری اور نہیں بڑھ جاتی کیا یہ قوم جو ہمیشہ عدلیہ کا وقار اور افتخار بلند کرنے کے لئے کھڑی ہوتی رہی ہے اور رہے گی کیا اتنا بھی سوال نہیں کرسکتی عام آدمی کو انصاف ملنا کب شروع ہوگا کب عام آدمی انصاف کے حصول کے لئے پورے یقین اور اعتبار کے ساتھ آگے بڑھ سکے گا کیا مافیاز قانون کے پیچھے ہی چھپتی رہیں گی اور عام آدمی کا استحصال ہوتا رہے گا کیا بنیادی حقوق کا قانون اُسی کے لئے ہے جو پہلے سے ہی ارب پتی ہو اور کروڑوں کے وکیل کرکے اپنے ہر کالے دھندے کو قوم کی خدمت سے تعبیر کرادے کیا اس قانون کے پیچھے چُھپ کر ہر رات عوام کو جھوٹ کی بنیاد پر بھڑکایا جاتا رہے گا کہ جس سے اُن کی سحر بھی تاریک ہوجائے۔ جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ سچ قانون کو بھی پتا ہوگا مگر شاید لبوں تک نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں بس دو ہی اندھے ہیں ایک قانون اور ایک اُس قانون سے انصاف کی تلاش میں بھٹکنے والے عوام۔
ذرا سوچیں ہم نے بحیثیت قوم آج تک کوئی سنگِ میل عبور کیا ہے کیا ؟ کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر دنیا کو تسخیر کرنے کے خواب دیکھنے والی قوم سے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ دنیا کے کتنے ممالک کو کرکٹ کاپتہ ہے شاید صرف آٹھ دس تو پھر کس طرح ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کا نام پوری دنیا میں بلند کردیا کیا پاکستانیوں کو پتہ ہے کہ رگبی آئس ہاکی ایتھلیٹکس کے ورلڈ چیمپئن کون ہیں ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم وہ ریلو کٹے ہیں جو ‏‎ایک کمپیوٹر تو دور کی بات اُسکا ماؤس تو بنا نہیں سکتے، ایک چھوٹا اسمارٹ فون تو بنا نہیں سکتےہاں لوگوں کوبیوقوف بناسکتے ہیں جب سے پاکستان بنا ہے ٹوٹل دو چیزیں کلی طور پر پاکستان میں بنائی گئی ہیں ایک سائیکل دوسرا پین. ہندوستان میں اربوں ڈالر انویسٹ کرنے والی مائیکرو سوفٹ کے نزدیک پاکستان کوئی مارکیٹ ہی نہیں، وہ یہاں لائسنس ونڈوز پر کام ہی نہیں کرتے، دنیا کی کسی بھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کا آفس یا فیکٹری پاکستان میں نہیں. دوہزار بارہ میں جب گوگل چیف پاکستان آئے تو انھوں نے جاتے ہوئے صرف یہ کہا کہ یہاں کمیشن کی بات پہلے اور مشن کی بات بعد میں کی جاتی ہے ، سنگاپور جیسا چھوٹا سا ملک ٹیکنالوجی میں پاکستان سے سو سال آگے ہے. ویت نام ملیشیا جیسے ممالک میں انٹیل کے پروسیسرز عرصہ دراز سے بن رہے ہیں مگر پاکستان صرف گجرات کے پنکھے، گوجرانوالہ کے سرامیک فلیش اور سیالکوٹ کی فٹبال بنا کر خوش ہے. بہت تیر مارنے کے بعد اب ہم نے چین سے مشینری مانگ کر موٹرسائیکل اور گاڑیاں جوڑنے کا کام شروع کر دیا ہے. ہاں خودکش جیکٹ بنانے میں ہم ماسٹر ہیں بلکہ ماسٹر مائنڈ بھی ہمارے ہیں، ہم پریشر ککر میں بم بنانے کے ماہر ہیں، ہاکی فٹبال اسکواش بلیئرڈ تو بچوں کے کھیل ہیں، ہم تو فرقہ فرقہ کھیلنے کے ماہر ہیں،ہم سب ڈاکٹر اور حکیم بھی ہیں جس دوا سے پچھلی بار آرام آیا تھا وہی سب کو کھلا دیتے ہیں. ہمارے ہاں ٹی وی اسکرین پربحیثیت تجزیہ کار آنے والا شخص ہر مسئلے پر عبور رکھتا ہے آپ اُس سے سیاست سے لیکر کھیل تک مذہب سے لیکر صحت تک یہاں تک کے کھانےپکانے کے طریقوں تک پر بات کریں وہ ہر مسئلے پر اپنی رائے ٹھونسنے کا ماہر ہوتا ہے ۔ایک ہی شخص ہمارے ہاں آٹھ بجے سیاسی ٹاک شو کا میزبان دس بجے سیاسی جماعت کا ترجمان اور گیارہ بجے نیوٹرل سیاسی تجزیہ کاربن جاتا ہے اور قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے بس چلی ہی جارہی ہے۔‏‎چلیں انڈیا آپ سے بہت بڑا ہے اس کے گروتھ ریٹ کی بات نہیں کرتے، آپ ہانگ کانگ، کوریا، سنگاپور اور ملائشیا دیکھ لیں۔ گوگل پر سرچ کریں ہر ملک کا جی ڈی پی اور سالانہ گروتھ ریٹ آپ کے سامنے آ جائے گا. آپ یوٹیوب پر ویڈیو دیکھ لیں ہر ملک کی اکنامکس ڈاکومنٹری مل جائے گی، لیکن یوٹیوب تو یہودیوں کی ہے، اس پر گستاخانہ فلم آج بھی موجود ہےبند کردو، فیس بک بھی یہودیوں کی ہے، اس پر تو ہزاروں گستاخانہ پیجز چل رہے ہیں ، یہ ویب سائٹس تو مکمل بند ہونی چاہئے، موبائل فون تو شیطانی آلہ ہے اسے تو آگ لگانی چاہئے... اس ذہنیت کے ساتھ آپ کب تک چل سکتے ہیں؟
‏‎پاکستان کے پاس فلٹر لگانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے کہ کسی ایک ویڈیو یا کسی پیج کو بند کر سکیں، یہی وجہ ہے کہ ہم ایک ویڈیو کی وجہ سے پوری یوٹیوب بند کر دیتے ہیں، چند پیجز کی وجہ سے پوری فیس بک بند کر دیتے ہیں ایسے حالات میں یہ قوم ترقی کیسے کر سکتی ہے؟ علم کیسے حاصل کر سکتی ہے؟ اور پھر یہ ویب سائٹ بند کرنا بھی ڈھکوسلا ہی ہے دس سال کے بچے بھی پراکسی لگا کر ویب سائٹ کھول لیتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کو صرف ہمارے ووٹ سے محبت ہے ہم سے نہیں جب جب ووٹ کا وقت قریب آیا ان حکمرانوں کے دل میں ہماری محبت جاگ جاتی ہے۔

تازہ ترین