• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راقم نے 2جون کے کالم میں کراچی شہر جس کو ماضی میں روشنیوں کا جگمگاتا خوبصورت شہر کہتے تھے ۔آج کچرا منڈی بن چکا ہے کاتفصیلی جائزہ پیش کیا تھا کہ یہ کس طرح سندھ حکومت کے ہاتھوںیر غمال بنا ہوا ہے۔ساڑھے 4کھرب مرکز کو ٹیکس دینے کے بعد صرف 20ارب کی خیرات پاتا ہے ۔جبکہ صرف ایک کھرب پورے ملک سے ٹیکس جمع ہوتا ہے۔کراچی سندھ حکومت کی لاپروائی کی وجہ سے دن بہ دن پسماندگیکی طرف گامزن ہے اور مرکز بھی باوجود اس کے کہ ہمارے موجودہ صدر اور سابق صدر کا تعلق بھی اسی صوبے سے ہے ،مکمل نظر انداز ی کا شکار ہے۔ باوجود بار بار احتجاجوں ،دھرنوں کے سندھ حکومت اور مرکزی حکومت دونوں کان دھرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔پورا شہر تو کچرا کنڈی تھاہی ،اوپر سے چند دنوں کی بارش نے کراچی انتظامیہ اور سندھ بیوروکریسی،وزراء،مشیروں کی پول کھول دی ۔تمام سڑکیں پانی میں ڈوب گئی ہیں جس کی وجہ سے چھوٹی بڑی گاڑیاں حتی کہ بسیں اور ٹرالر تک پانی میں ڈوب گئے ۔گھروں اور فیکٹریوں میں پانی داخل ہوگیا ۔اربوں روپے کاسامان اور مشینیں تباہ ہوگئیں ۔کئی دنوں تک تو بازار بھی بند رہے، پانی کی نکاسی کانہ میئر کراچی اور نہ ہی سندھ حکومت کے پاس کوئی بندوبست تھا ۔ میئر کراچی سندھ حکومت کو کوس رہے تھے تو دوسری طرف سندھ حکومت یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئی کہ ہم نے میئر کراچی کو 20ارب دیئے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ڈھائی 3کروڑ کی آبادی والے شہر کو 20ارب روپے اونٹ کے منہ میں زیرےکے برابر ہیں ۔جبکہ ایک تہائی آبادی والے شہر لاہور جیسے شہر کو 100کروڑ صرف مرکز سے ملتے ہیں ۔لاہور میونسپلٹی اور صوبائی ٹیکس لاہور پر خرچ ہوتا ہے ۔اس کے برعکس کراچی کا جمع شدہ اربوں کا نہیں کھربوں کا ٹیکس صوبائی اور مرکزی حکومت ہڑپ کرتی ہیں۔کراچی تو کجالاڑکانہ جو مرحوم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری سے تعلق رکھتا ہے وہ کھنڈر سے زیادہ نہیں ہے۔اگر یہ کہا جائے تو صحیح ہوگا کہ وہ موجودہ موہنجودڑو لگتا ہے ۔آج لاہور سابقہ کراچی کی طرح جگمگارہا ہے۔اور کراچی سابقہ لاہور کی شکل سے بھی بدتر ہوچکا ہے ۔اگر 2تین دن اور بارش ہو جاتی اور فوج اور رینجر زمل کر پانی کی نکاسی کا ہنگامی طور پر بندوبست نہ کرتے تو پورا شہر خدانخواستہ ڈوب جاتا ۔پانی کا ایک قطرہ گرتے ہی سب سے پہلے بجلی اور ٹریفک پولیس غائب ہوجاتی ہے ۔سڑکوں پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔ منٹوں کافاصلہ گھنٹوں میںطے ہوتا ہے، جگہ جگہ پانی کھڑا ہوجاتا ہے، جس سے گاڑیاں بند ہوجاتی ہیں ۔جب سے پی پی پی کی حکومت آئی ہے کراچی کی بدحالی بڑھتی جارہی ہے ۔ابھی یہ تما م مصیبتیں کراچی والے جھیل رہے تھے کہ 20سال بعد ہونے والی مردم شماری نے رہی سہی کسر نکال دی ۔کہا تو جارہا تھا کہ فوج کی نگرانی میں مردم شماری ہوگی مگر اس مرتبہ بھی کراچی کی آبادی آدھی کردی گئی۔حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اس شہر کی آبادی کسی طرح بھی 3کروڑ سے کم نہیں ہے ۔مگر صرف سندھ کی 33فیصدیعنی1کروڑ49لاکھ بنادی کیونکہ صدر ایوب خان کےقانون 1959کے تحت مردم شماری کو خفیہ رکھنا لازمی ہے ۔اور اسی قانون کے تحت کوئی صوبہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کرسکتا مگرنادرا کے ریکارڈ کے مطابق کراچی ،حیدرآباد،سکھرکی 48فیصد آبادی بالغوں کی ہے۔کراچی والے تو بلبلا اٹھے مگر سندھ حکومت جس کی نگرانی اُس کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کررہے تھے جو اس سازش میںمبینہ ملوث تھے۔صرف دکھانے کے لئے سندھ کی کل آبادی نہیں تسلیم کررہی تاکہ اُس پر کوئی شک نہ کرسکے ۔اور اگر صحیح مردم شماری کا نتیجہ آتا ہے تو سندھ میں اس وقت 60فیصد غیر سندھی یعنی اُردو ،پنجابی ،پشتوں اور بلوچوں کی آبادی ہے ۔اس طرح آبادی کے لحاظ سے سندھی بولنے والے اب اقلیت میں شمار ہوتے ہیں اور پھر اس کی وجہ سے پی پی پی کے ہاتھ سے مرکز کے بعد اب سندھ بھی نکل جاتا ۔لہذا وہ کبھی بھی صحیح مردم شماری نہیں ہونے دیتی ۔اس مردم شماری میں جس طرح الیکشن میں دھاندلیاں ہوتی ہیں بالکل اسی طرح مرکز میں پنجاب اور صوبے میں سندھ حکومت اپنے مطلب کا آبادی کا شمار پیش کرکے اسمبلیوں اور دیگر کوٹے ہڑپ کرتے ہیں ۔عوام بیچارے اُردو بولنے والے شہری صرف منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔نہ وہ ملک میں آبادی کے لحاظ سے نئے نئے صوبے بننے دیتے ہیں۔70سال سے پاکستان دنیا کا واحد بدقسمت ترین ملک ہے جس میں قیام پاکستان کے وقت 17صوبے سے صر ف 5صوبے رہ گئے ہیں اور کراچی سب سے آگے ہے پہلے کراچی سے دارالحکومت چھینا پھر رہی سہی کسر صوبہ بھی ہاتھ سے جاتا رہا ۔اس کی بدحالی میں سب سے بڑا ہاتھ ایم کیوایم کے بانی کا رہا ۔وہ ہر حکومت میںشامل ہوکر ایک ایک کرکے تمام حقوق سندھ حکومت کو فروخت کرکے لندن میں بیٹھ کر مزے اُڑاتے رہے ۔صرف اسمبلی میں ڈرامہ رچاکر یہ باور کراتے تھے کہ ہم مہاجروں کے حقوق کی بات منوانے کی کوشش کررہے ہیں ۔سندھ کے گورنر کو لندن بلواکر بٹھاتے اور پیچھے قائم مقام گورنر اسمبلی سے پاس شدہ اکثریتی گورنر سے دستخط کرواکر اپنا کام دکھاجاتا ۔یہ کھیل تب تک جاری رہے گا ۔جب تک خود کراچی اور دیگر شہروں میں اُردو بولنے والے اکھٹے ہوکر اپنے حقوق نہیں منواتے ۔اس کے لئے سب سے پہلے مردم شماری کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔اور صحیح قیادت چنیں اور جس پارٹی کو ووٹ ڈالیں پہلے اُس سے اپنے مطالبات منوائیں پھر اُس پارٹی کے لئے سب مل کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور سب مل کر نعرہ لگائیں کراچی کی مردم شماری نامنظور۔

تازہ ترین