• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی آئندہ نسلوں کے لئے خوش خبری یہ ہے کہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کی طرف سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ خارجہ پالیسی تبدیل کرنے کی سوچ کو ہی ایک انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ پرانی خارجہ پالیسی سے ہماری ہیئت مقتدرہ کے کئی حلقوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہیں۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان مخصوص مفادات سے دستبرداری کے لئے بھی ذہن بنالیا گیا ہے۔
ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی صرف بیان دینے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ خارجہ پالیسی اتحادی یا دوست ممالک کی ’’ بے وفائی ‘‘ پر صرف ردعمل ظاہر کرنے سے بھی تبدیل نہیں ہوتی۔ سیاست دانوں یا غیر سیاسی مقتدرہ کا بیانیہ تبدیل ہونے سے بھی خارجہ پالیسی نہیں بدلتی ۔ اس کےلئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ خارجہ پالیسی ملک کی داخلہ پالیسی کا پر تو ہوتی ہے۔ جب تک داخلہ پالیسی کا بیانیہ تبدیل نہیں ہو گا، تب تک نئی خارجہ پالیسی مرتب نہیں کی جا سکتی، جو اب تک ہماری بدلی ہوئی سوچ کا حصہ ہے لیکن یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو تبدیل کرنے کے لئے بگل بجا دی گئی ہے۔ 6ستمبر کو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کی تقریر نئی تبدیل ہوتی ہوئی دنیا، خطے کا جائزہ، پڑوس اور عالمی حالات کے مطابق داخلہ اور خارجہ پالیسی پر نیا بیانیہ قوم کو دیا۔سپہ سالار نے بہت صاف اور پرزور انداز میں نئے خدوخال دیئے کہ اسلام میں جہاد صرف ریاست کا حق ہے بھٹکے ہوئے لوگ جہاد نہیں کر سکتے۔ انھوں نے کہا کہ ہم آئین اور عدلیہ کے ساتھ ہیں۔پاکستان نے افغانستان میں بہت کر لیااب دنیا ڈومور کرے۔ عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کی ذمہ داری ہم پر نہ ڈالیں اور کشمیر میں تشدد بند کرائیں۔ امریکہ سے امداد نہیں بلکہ عزت سے رشتہ چاہئے۔ ہماری ناکامی خطہ میں عدم استحکام پیدا کرے گی۔سی پیک خطے میں امن کی ضمانت ہے۔ یہ بیانیہ پڑوسی ممالک، خطے کی صورتحال اور عالمی تبدیلیوں کے ساتھ اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کے خدوخال ہیں۔اگرچہ اس طرح کا ’’ اعلان ‘‘ پاکستان کے لئے مسائل پیدا کر سکتا ہے کیونکہ پاکستان اب تک پرانی خارجہ پالیسی کے جال میں پھنسا ہوا ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کاجبر پاکستان کو اس راستے پر دھکیل رہاہے، جس راستے پر بطور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کو ڈال چکے تھے اور جنہوں نے بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے تیسری دنیا کے دیگر ممالک کو بھی گامزن کر نے کی کوشش کی تھی اور پاکستان کو قائدانہ کردار سونپ دیا تھا۔ اس پر نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پاکستان کر راہ راست پر لانے کےلئے ایک ’’ زور دار جھٹکا ‘‘ دیا بلکہ بھٹو کو بھی عبرت کا نشان بنا دیا۔ بھٹو کو ہٹا کر ضیاء الحق نے پاکستان کو اس راستے سے ہٹا کرنہ صرف پرانی ڈگر پر ڈالنے کی کوشش کی بلکہ پاکستان کے تبدیل شدہ بیانیہ کو بھی متروک کر دیا۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں اس طرح کے داخلی حالات پیدا کئے اور خارجہ پالیسی تشکیل دی جو آج تک پاکستان کو آسیب کی طرح جکڑے ہوئے ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاکستان کے سفیروں کی تین روزہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان کے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور خارجہ پالیسی کی نئی جہتیں طے کرنے پر گفتگو کی گئی۔ خارجہ پالیسی اگرچہ بیورو کریٹس تشکیل نہیں دیتے لیکن اب تک سیاسی و عسکری قیادت کے بیانات سے مجوزہ نئی خارجہ پالیسی کا خاکہ ابھر رہا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت کے بعد نوزائیدہ مملکت پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے مخصوص مفادات کے تحت پاکستان کو امریکی کیمپ میں جھونک دیا تھا اور سیٹو اور سینٹو جیسے فوجی اتحادوں کا حصہ بن کر امریکہ اور اس کے حواریوں کے سامراجی مفادات کے محافظ کا کردار سونپ دیا۔ اس خارجہ پالیسی کی وجہ سے پاکستان میں نہ صرف جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا بلکہ رجعت پسندانہ بیانیہ رائج کیا گیا ۔ خارجہ پالیسیاں داخلی حالات پر اثر انداز ہوئیں اور داخلی حالات نے اس سامراج نواز خارجہ پالیسی کو تقویت پہنچائی اور حکمراں اشرافیہ کے مخصوص مفادات اس خارجہ پالیسی سے وابستہ ہو گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اس خطے میں نہ صرف تنہا رہ گیا ( کیونکہ پاکستان کے ہمسایہ اور خطے کے دیگر ممالک کی خارجہ پالیسیاں سامراج نواز نہیں تھیں۔ ) بلکہ پاکستان میں طاقت پرست اور رجعتی معاشرہ قائم ہوا، جس نے پاکستان کوبحرانوں، انتشار اور بربادی سے دوچار رکھا۔ ایوب خان کے دور میں ایک قوم پرست اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والا سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو میسر تھا، جس نے شعوری طور پر سامراجی کیمپ سے نکالنے کی کوشش کی۔ آج کا بڑا المیہ یہ ہے کہ بھٹو جیسا قائدنہیں ہے۔ مولانا کوثر نیازی اپنی کتاب ’’ دیدہ ور ‘‘ میں بھٹو کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ ایک کامیاب خارجہ پالیسی چلانے کے لئے ہاتھوں سے پھسلتے لمحوں پر مضبوط گرفت رکھنا لازم ہوتا ہے اور غیر لچک دار اور جامد اذہان کے لوگ یہ کام نہیں کر سکتے۔ بھٹو خارجہ امور کی جدید اور پیچیدہ سائنس کے نہ صرف ماہر تھے بلکہ ان کا شمار دنیا کے ان رہنماؤں میں ہوتا تھا، جو خارجہ امور پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ بھٹو کہتے تھے کہ کسی عالمی طاقت کے خلاف صف آرائی سے گریز کرنا چاہئے اور اگر یہ ناگزیر ہو جائے تومردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے،تاخیر اور تذبذب کی پالیسی کو وہ چھوٹی اقوام کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ ‘‘
پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بیانیہ تبدیل ہونے کا جو سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا تھا، اس کی وجہ بھی چین تھا۔ اس وقت بھارت چین محاذ آرائی کے بعد امریکہ یہ تصور کر رہا تھا کہ چین کا گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ اس نے پاک بھارت تعاون کے حصول کیلئے تنازعہ کشمیر حل کرانے کی باتیں کیں۔ بھارت نے اس صورت حال میں امریکہ سے بھاری فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کرنے کے بعد نہ صرف امریکی پالیسی پر عمل کرنے سے انکار کر دیا بلکہ کشمیر کا باقی حصہ حاصل کرنے کی باتیں شروع کر دیں۔ امریکہ نے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کیلئے تربیلا ڈیم اور دیگر منصوبوں کی امداد میں تعطل پیدا کیا اور پاکستان مجبوراً چین کی طرف چلا گیا۔ آج امریکہ چین کی پیش قدمی روکنے کے لئے پاکستان کو اپنے کیمپ سے باہر دھکیلنے اور اور دھمکیاں دینے کے حربے استعمال کر رہا ہے۔ ایوب خان خود بھی پاکستان کو امریکی اثرو رسوخ سے نکالنا چاہتے تھے اور انہوں نے ’’ فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘‘ نامی کتاب بھی لکھی لیکن پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بری طرح امریکی جال میں پھنسی ہوئی تھی اور ایوب خان کو مجبوراً نوجوان وزیر خارجہ بھٹو کو اپنی کابینہ سے برطرف کرنا پڑا۔ اس وقت کے عظیم فلسفی اور انسان دوست سیاسی مفکر برٹرینڈ رسل نے عالمی رہنماؤں اور دنیا کے بڑے اخبارات کو خطوط لکھے، جس میں انہوں نے کہا کہ ایک سامراج مخالف اور قوم پرست رہنما بھٹو کی کابینہ سے برطرفی مغربی سامراج کی سازش ہے۔ ایوب خان کے دور تک پاکستانی معاشرہ اس قدر رجعتی اور انتہا پسند نہیں تھا، جس قدر آج ہے۔ روشن خیالی اور ترقی پسندی کی جو سوچ ایوب خان کے دور تک تھی، اس کا ضیاء الحق اور بعد ازاں پرویز مشرف نے خاتمہ کر دیا۔ بھٹو کے دور تک غیر وابستہ تحریک، اسلامی ممالک کا اتحاد، اشتراکی بلاک بہت مضبوط تھے cold war اور تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں نئی صف بندی کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہوا ہے۔ برکس ( Brics) جیسے نئے اقتصادی بلاکس بن رہے ہیں، جن میں پاکستان ابھی شامل نہیں ہے۔ آج امریکہ چین کی پیش قدمی روکنے اور اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کیلئے زیادہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جو 1960اور 1970 ء میں نہیں تھی۔ اس وقت بھی سقوط ڈھاکا کی صورت میں پاکستان کو ایک زور دار جھٹکا دیا گیا تھا۔ مختصراً یہ کہ پاکستان نے ایوب خان اور بھٹو کے دور میں نہ صرف امریکی کیمپ سے نکلنے کی کوشش کی تھی بلکہ پاکستان کو بھٹو نے سامراج مخالف عالمی تحریک کا لیڈر بنا دیا تھا۔ اس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا حالانکہ داخلی حالات اس قدر خراب نہیں تھے۔ پاکستان کی رجعتی داخلی پالیسی کو جسے عالمی طاقتوں نے سقوط ڈھاکہ کے لئے استعمال کیا آج حالات زیادہ خطرناک ہیں۔ نہ صرف دہشت گرد ملیشیاز پاکستان میں موجود ہیں بلکہ دہشت گردی کی معیشت اور دہشت گردی سے وابستہ بعض عناصر کے مخصوص مفادات بھی ہیں۔ نئی خارجہ کیلئے سب سے پہلے ہمیں اپنی داخلہ پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔ جمہوریت، جمہوری اداروں،تعلیم اور درسگاہوںکو نئے خطوط پر بنانا ہو گا۔ انتہا پسندانہ سوچ کے خاتمے کیلئے بے رحمانہ اقدامات کرنا ہو ں گے کیونکہ یہ سوچ ہی بڑھ کر دہشت گردی پر ختم ہوتی ہے اور پاکستان کے قومی مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی مرتب کرنا ہو گی جو تبدیل شدہ داخلی پالیسی ہونی چاہئے۔پہلے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ پاکستان کے پاس 1960 ء اور 1970 ء کی دہائی کا تجربہ موجود ہے۔ 1980ء کی دہائی سے اب تک ہونے والی بربادی سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اگر بھٹو نہیں ہے تو چین کی طرح تھنک ٹینکس کے ذریعے پالیسیاں بنائی جائیں جہاں ہر پالیسی پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ادارے تھے۔

تازہ ترین