• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد حلقہ این اے120کے ضمنی انتخابات میں 17ستمبر2017ء کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔ اس انتخابی جنگ میں ن لیگ کی طرف سے سابق خاتون اوّل بیگم کلثوم نواز، پی ٹی آئی کی رہنما اور گائناکالوجسٹ ڈاکٹر یاسمین راشد کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیدوار ضیاء الدین انصاری، ملی مسلم لیگ کے محمد یعقوب، تحریک لبیک کے امیدوار شیخ اظہررضوی، پی پی کے فیصل میر، پی پی نظریاتی گروپ کی ساجدہ میر وغیرہ حصہ لے رہے ہیں۔ حلقے میں وزٹ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر امیدوار جیت رہا ہے کیونکہ اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک 50کروڑ روپے سے زائد پانی کی طرح بہا دیئے گئے ہیں ابھی پانچ دن باقی ہیں اور ووٹرز کی خریدو فروحت میں پتہ نہیں اور کتنے کروڑوں روپے بہائے جاتے ہیں کیونکہ ہرکوئی اسے آخری معرکہ سمجھ کر لڑرہا ہے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ الیکشن ایک طرف آئندہ عام انتخابات کی کچھ حد تک نہ صرف سمت متعین کرے گا بلکہ سرکاری مشینری کا استعمال اور الیکشن کمیشن کی جانبداری یا غیر جانبداری بھی واضح ہو جائے گی۔ اس حلقے کا مختصراً معروضی انداز میں جائزہ لیکر موجودہ صورتحال عوام تک رکھنے کی کوشش کرینگے تاکہ عوام کو بھی آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دیتے وقت اپنی ترجیجات طے کرنے میں آسانی ہو۔
این اے 120میں اسوقت کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3لاکھ 21ہزار 786ہے۔ گزشتہ پندرہ برس میں ووٹرز کی تعداد میں79ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن نے 220پولنگ سٹیشن بنائے ہیں جن میں مردوں کے 286خواتین کیلئے 238جبکہ 98مشترکہ پولنگ بوتھ شامل ہیں۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور ترسیل فوج کی نگرانی میں ہوگی۔ الیکشن کمیشن نے فوج کی تعیناتی کیلئے وزیردفاع کو خط لکھ دیا ہے جبکہ چار دن کیلئے رینجرز کی تعیناتی پر وفاقی حکومت نے آمادگی ظاہر کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے کل 537پولنگ بوتھ میں سے ایک سو بائیو میٹرک مشینیں استعمال کرنیکی نہ صرف منظوری دے دی ہے بلکہ آزمائشی تجربہ بھی کیا گیا ہے گو ایک رپورٹ کے مطابق 29ہزار ووٹروں کے انگوٹھے اور انگلیوں کے نشان ہی موجود نہیں بہر حال اپنی طرف سے الیکشن کمیشن نے شفاف الیکشن کے انعقاد کیلئے انتظامات مکمل کرلئے ہیں لیکن بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اگر انکے جو ابات پولنگ ڈے سے پہلے سامنے نہیں آتے تو عام آدمی سے لیکر قومی اور بین الاقوامی ادارے ان انتخابات کو شفاف، غیر جانبدار اور دھاندلی سے پاک نہیں کہہ سکیں گے، صرف پانچ دن باقی ہیں۔ بیگم کلثوم نواز کی نااہلی کے حوالے سے دائر درخواستوں پر فیصلہ ہی سامنے نہیں آسکا۔ ن لیگ کے وزرا اراکین اسمبلی ڈنکے کی چوٹ پر الیکشن مہم چلا رہے ہیں کہ گو الیکشن کمیشن نے فارمیلٹی پوری کرنے کیلئے تمام پارٹیوں کو نوٹسز جاری کئے مگر یہ اسی طرح مہم چلار ہے ہیں کوئی ٹھوس رزلٹ دیکھنے میں نہیں ملا۔ سرکاری مشینری کا بھر پور استعمال مبینہ طور پر جاری ہے،سرکاری آفس میں مختلف برادری سربراہوں کو بلا کر حلف لئے جارہے ہیں اور نواز شریف کی طرف سے پنجاب کی اعلیٰ شخصیت سے کہا گیا کہ افسران کو ہدایت کی جائے کہ وہ مریم نواز کی ہدایات پر عمل کریں، دوسری طرف مریم نواز کی طرف سے نوکریوں کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔اس حلقے میں مبینہ طور پر دس سے بارہ ہزار ایسے ووٹرز ہیں جنکاتعلق دوسرے حلقوں سے ہے وہ دھاندلی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں جبکہ بندپار رہنے والے آٹھ ہزار کے قریب افغانیوں کے بھی ووٹ ہیں
بس ایسے حالات میں ضمنی الیکشن ہورہے ہیں۔ یہ شاید واحد حلقہ ہے جہاں 2013ء کے الیکشن میں نواز شریف خود آئے اور نہ ہی جیتنے کے بعد نااہلی تک اس حلقے کی طرف اُنکے قدم بڑھ سکے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ 1985ء سے اب تک وہ اس حلقے سے چھ مرتبہ خود جیتے جبکہ دو مرتبہ ن لیگ کے امیدوار جیتے لیکن یہ وہ بدقسمت حلقہ ہے جس میں گذشتہ چار برسوں میں صرف چند گلیوں کے سوا کوئی کام نہیں ہوا۔ گو 2013ء کے الیکشن میں نواز شریف نے 91ہزار 666ووٹ لئے مگر دوسری طرف ڈاکٹر یاسمین راشد نے 52ہزار 231ووٹ حاصل کئے تھے۔ اس وقت معرکہ اپنے ووٹ بنک کو بچانے اور قائم رکھنے کا ہے۔ مگر جو حالات ہیں وہ یہ الارم بجا رہے ہیں کہ ایک تو ٹرن آئوٹ جو 2013ء میں 51.8فیصد تھا وہ30سے 35فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ ن لیگ کا اصل کارکن اب بھی ناراض ہے اور آج کی تاریخ تک مریم نواز سے متعلقہ ایم پی اے ملاقات ہی نہیں کروا رہے بلکہ اپنے من پسند افراد کی ملاقاتیں کروائی جارہی ہیں، پھر حلقہ پی پی 139کے ایم پی اے کے حوالے سے ووٹرز اور کارکنوں میں سخت نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں کارکنوں کو نوکریاں نہیں ملیں اگر کوئی نوکریاں آئیں بھی تو ایم پی ایز نے وہ مبینہ طور پربیچ ڈالیں۔ سیوریج کی ناقص صورتحال، بند پار تین چار یونین کونسلز ایسی ہیںجہاں ایک اسکول بھی نہیں، چار سال کے عرصے کے دوران نہ کوئی ا سکول بنا اور نہ ہی کالج اور اسپتال، حلقے سے گزرنے والا نالہ تک ڈھانپا نہیں جا سکا، دربار اسپتال میں اینستھزیا کا ڈاکٹر ہی موجود نہیں۔ بابا گرائونڈ پر قبضہ ہے۔ چھ برس پہلے نواز شریف اس حلقے میں گئے تو انہوں نے یہ قبضہ چھڑانے کا اعلان کیا مگر اعلان سے آگے کبھی بات نہ ہوئی۔ انہوں نے بلدیاتی انتخابات میں اصل کارکنوں کی بجائے انویسٹرز کو ٹکٹ دیئے یہی وجہ ہے کہ مریم نواز کو گھر گھر مہم چلانی پڑرہی ہے اور لوگوں کی ناراضگیاں دور نہیں ہوپارہیں۔ آج تک اس حلقہ کے اندر نواز شریف کا چار سال میں دفتر تک نہیں تھا۔چونکہ کشمیری، شیخ اور آرائیں برادری کی اکثریت ہے اور وہ بیگم کلثوم کی بیماری اور ہمدردی کاآخری ووٹ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی امیدوار یاسمین راشد کو انتخابی مہم چلانے میں دشواریاں ہیں حالانکہ اس حلقے میں یوتھ کا ووٹ بڑھا ہے مگر نہ تو تحریک انصاف کی تنظیم سازی ہے موجود ڈھیلا ڈھانچہ دھڑے بندی کا شکار ہے، یاسمین راشد کے قریبی ساتھی کے تحفظات کیوجہ سے علیم خان اس انتخابی مہم کا حصہ نہیں بن سکے جبکہ سابق ایم پی اے آجاسم کی پی ٹی آئی میں شمولیت اس حلقہ کے تحریک انصاف کے حامیوں کو برداشت نہیں اور سب سے اہم فیکٹر کہ بھلی بٹ جسکی وجہ سے گذشتہ انتخابات میں یاسمین راشد کو ووٹ ملے تھے وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ اسلئے تحریک انصاف کے جیتنے کے امکانات بہت کم ہیں البتہ اگر وہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے لیتی ہے اور تحریک لبیک، ملی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی مل کر 25ہزار کے قریب ووٹ لے لیں اور شہباز شریف ن لیگ کے صدر نہیں بن پائے تو اسکی جیت یقینی ہے۔پیپلز پارٹی جس کو 2013ء کے الیکشن میں 26سو چار ووٹ ملے تھے اب چار سے پانچ ہزار ووٹ ملنے کا امکان ہے وہ بھی اس لئے کہ یہاں کے پرانے کارکنوں کو آصف زرداری نے تھپکی دی ہے۔ جماعت اسلامی دیکھنا چاہتی ہے کہ یہاں اُنکا ووٹ بنک موجود ہے یا نہیں البتہ ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک دونوںن لیگ کے ووٹ توڑ یںگی۔ یہ وجوہات ہیں جنکی بنیاد پر ن لیگ کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ نواز شریف کو عوام نے جیسے پہلے بتایا تھا کہ انہیں کیوں نکالا گیا اب ن لیگ کے جیتنے کی وجوہات بتا دی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اس حلقے میں آ کر عوام سے معافی مانگیں شاید ان کی مشکلات کم ہو سکیں !

تازہ ترین