• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی عیدالاضحی آتی ہے یہ کہانی میری یادوں کے آنگن پر اتر آتی ہے۔ کوئی پچاس پچپن برس پرانی کہانی ہے۔ اس کہانی کو آپ ایک واقعہ بلکہ ڈرائونا واقعہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ واقعہ اس دور کے نامور اخباروں، جنگ، انجام، ڈان اور مارننگ نیوز میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ ایک عرصے تک اس واقعہ پر تبصرے ہوتے رہے تھے۔ جو لوگ اس واقعہ پر تبصرےنہیں کرسکتے تھے، یا پھر تبصرہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے وہ سکتے میں آگئے تھے۔ انہوں نے چپ سادھ لی تھی۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے پریشان ہوگئے تھے۔ ایک ایسے واقعہ کے بارے میں انہوں نے پہلے کبھی کوئی نہ قصہ سنا تھا اور نہ پڑھا تھا۔ میرے ہم عمر اور ہم عصر جو اب گنتی کے رہ گئے ہیں ان کی یادوں کے سرد خانے میں یہ قصہ ضرور محفوظ ہوگا۔ اس واقعہ کو بھلایا جا نہیں سکتا۔ عیدالاضحی کے موقع پر حلال جانوروں کے ہزاروں اور لاکھوں، بلکہ کروڑوں ریوڑ دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے آسمانوں سے اگر بکرا نازل نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ اور اگر حضرت ابراہیم ؑنے اپنے چہیتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی ہوتی اور اسے ذبح کردیا ہوتا، تو کیا ہوتا؟ میری سوچ کے تانے بانے پچاس برس پرانے واقعہ سے جاملتے ہیں۔ کیا مسلمان اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے بیٹوں کی قربانی دیتے؟ وہ کہانی اسی نوعیت کی ہے۔ اس کہانی کے کردار آپ ہوسکتے ہیں۔ اس کہانی کا کوئی ایک کردار آپ ہوسکتے ہیں اس کہانی کا کوئی ایک کردار میں بھی ہوسکتا ہوں۔ ہم سے پہلے بھی کچھ لوگ اس کہانی کا کرداربنیں گے۔ عبدالواحد سیدھا سادا سا آدمی تھا۔ خاص پڑھا لکھا بھی نہیں تھا۔ ایک کمرے والے گھر کے آنگن میں چھوٹی سی پنساری کی دکان لگاتا تھا۔ سودا سلف بیچتا تھا۔ نیک تھا۔ روزہ نماز اور دیگر احکام الٰہی کا پابند تھا۔ اس نے ضروریات زندگی کو محدود رکھا ہوا تھا۔ کبھی بھی خواہشوں کے جال میں نہیں پھنستا تھا۔ اس لئے خوش رہتا تھا۔ جب دیکھو ہونٹوں پر مسکراہٹ اور چہرے پرسکون دکھائی دیتا تھا۔ میاں، بیوی اور ایک چہیتا بیٹا۔ یہ عبدالواحد کی کل کائنات تھی۔ وہ انبیا علیہ السلام کے قصے بڑے انہماک سے پڑھتا تھا۔ وعظ بھی غور سے سنتا تھا۔ ایک رات حسب عادت دیر تک تہجد پڑھنے کے بعد عبدالواحد اپنی چارپائی پر آکر لیٹا۔ ’’چار دعائیں پڑھنے کے بعد وہ سو گیا۔ اس قدر گہری نیند سویا کہ کروٹ تک نہیں بدلی۔ پھر اچانک وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پسینے سے شرابور تھا۔ سانس اس طرح لے رہا تھا جیسے ہانپ رہا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کی بیوی اور بیٹا اطمینان سے سوئے ہوئے تھے۔ عبدالواحد نے مٹکے سے گلاس میں پانی انڈیلا اور چارپائی پر بیٹھ کر پینے لگا۔ اس نے روح فنا کر دینے والا خواب دیکھا تھا۔
عبدالواحد نے کسی سے اپنے خواب کا ذکر نہیں کیا۔ سودا سلف بیچنے میں لگ گیا۔ اس نے دانستہ خواب بھلا دیا۔ دو چار راتیں وہ اطمینان سے سویا۔ ایک رات اچانک عبدالواحد نے وہی خواب دیکھا۔ تیز روشنی کے ہیولے میں سفید لباس میں ملبوس ایک باریش شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس شخص نے کہا۔ ’’عبدالواحد، میں تیرے لئے خوشخبری لایا ہوں۔ اللہ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز قربان کردے اور رحمت خداوندی سے مالا مال ہوجا۔‘‘
عبدالواحد ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ پسینے سے شرابور تھا۔ ہانپ رہا تھا۔ سینے میں اس کا دل بے آب مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اس نے جھانک کر کمرے کے اندر دیکھا۔ اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اطمینان سے سوئے ہوئے تھے۔ وہ جانتا تھا کہ دنیا میں اپنے اکلوتے بیٹے عبدالغفور کے علاوہ اسے کوئی اس قدر عزیز نہیں تھا۔ وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا۔ عبدالواحد نے گلاس میں مٹکے سے پانی انڈیلا اور چارپائی پر بیٹھ کر پینے لگا۔ وہ اس مرتبہ خواب دیکھنے کے بعد ڈر گیا تھا۔ عبدالواحد نے اپنے ڈر اپنے خوف کا کسی سے ذکر نہیں کیا۔ حتیٰ کہ اپنی بیوی کو بھی بے خبر رکھا۔ وہ پریشاں پریشاں دکھائی دینے لگا تھا۔ بیوی کے بار بار پوچھنے پر وہ کہتا تھا۔ ’’یہ تمہارا وہم ہے۔ میں پریشان نہیں ہوں۔‘‘عبدالواحد پریشان رہنے لگا تھا۔ اس دوران وہ تقریباً ہر رات وہی خواب دیکھنے لگا۔ ایک مرتبہ فرشتہ نما باریش شخص نے سختی سے عبدالواحد سے کہا۔ ’’عبدالواحد دیر مت کر۔ خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنی سب سے عزیز چیز خدا کی راہ میں قربان کردے۔‘‘
عبدالواحد گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ تھر تھر کانپ رہا تھا۔ پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ لڑکھڑاتے قدموں سے بمشکل مٹکے تک پہنچا۔ مگر گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے گر پڑا۔ عبدالواحد کے گرنے کی آواز سن کر اس کی بیوی جاگ گئی۔ ننگے پیر دوڑتے ہوئی کمرے سے باہر آئی۔ میاں کو فرش پر پڑے ہوئے دیکھ کر وہ رونے لگی۔ عبدالواحد نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کا کہا۔ بیوی نے سہارا دے کر اسے فرش سے اٹھنے میں مدد کی اور اسے چارپائی پر لٹادیا۔ تب عبدالواحد نے اپنے خواب کا ذکر بیوی سے کیا۔ خواب کا قصہ سن کر بیوی گھبرا گئی۔ وہ بھی عبدالواحد کی طرح دیندار عورت تھی۔ بیوی نے عبدالواحد کو مولوی صاحب سے مشورہ کرنے کا کہا۔ ان دنوں عیدالاضحی کی آمد آمد تھی۔ غور سے خواب کا قصہ سننے کے بعد مولوی صاحب نے عبدالواحد سے کہا ’’بڑے خوش نصیب ہو عبدالواحد۔ اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں اپنی عزیز ترین چیز قربان کرنے کی ہدایت ملی ہے۔ دیر مت کرو۔ اللہ کی راہ میں اپنی عزیز ترین شے قربان کردو۔‘‘
عبدالواحد اور اس کی بیوی نے اپنے آٹھ سال کے اکلوتے بیٹے کو نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے۔ بیوی نے عبدالواحد سے کہا ’’آپ ذرا بھی گھبرائیے گا مت۔ دیکھنا کہ عبدالغفور کے گلے پر چھری پھیرنے سے پہلے آسمانوں سے کوئی مینڈھا یا بکرا اتر آئے گا۔ اور تم دونوں باپ بیٹے امتحان میں سرخرو ہوکر کچھ دیر کے بعد گھر لوٹ آئو گے۔‘‘
عبدالواحد اپنے اکلوتے بیٹے کو منگھوپیر کی پہاڑیوں کے پیچھے لے گیا۔ اسے زمین پر لٹا دیا۔ چھری نکال کر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے عبدالواحد نے کہا ’’بکرا بھیجنے میں دیر مت کرنا۔‘‘آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے عبدالواحد نے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر دی۔ شہہ رگ سے خون کی دھار سیدھے عبدالواحد کے چہرے پر پڑی۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ کبھی تڑپتے ہوئے بیٹے کی طرف دیکھتا اور کبھی آسمان کی طرف۔ اپنے بال نوچتے ہوئے وہ چلاتا رہا۔ ’’بکرا کیوں نہیں آیا۔ بکرا کیوں نہیں آیا۔‘‘
عدالت میں ہر سوال کے جواب میں عبدالواحد کہتا رہا ’’بکرا نہیں آیا۔ بکرا نہیں آیا‘‘۔
عدالت نے عبدالواحد کو حیدر آباد کے قریب دماغی امراض کے اسپتال’ گدو مل مینٹل ہاسپٹل‘ بھجوا دیا۔

تازہ ترین