• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Norwegian Parliamentary Election Ruling Coalition Claims Victory

ناروے کے دائیں بازو کے حکمران اتحاد کو عام انتخابات کے نتیجے میں سادہ اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور یہ اتحاد دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائےگا۔

گزشتہ روز ہونے والے انتخابات کے نتائج کی آمد رات گئے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ منگل کی صبح تک جاری رہا۔حکمران اتحاد میں دائیں بازو کی دو بڑی جماعتیں’’ھورے پارٹی‘‘ اور ’’ایف آر پی‘‘ یا پراگریس پارٹی کے ساتھ کرسچن ڈیموکریٹ پارٹی اور لبرل پارٹی شامل ہیں۔

ناروے کی وزیراعظم اور ھورے پارٹی کی رہنماء ایرنا سولبرگ اس اتحاد کی سربراہ ہیں، دوسری طرف حزب اختلاف زیادہ تر بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل ہے جن میں لیبرپارٹی سب سے بڑی پارٹی ہے اور اس کے ساتھ بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹی ’’ایس وے‘‘ اور کسانوں کی جماعت سینٹرپارٹی شامل ہیں۔

لیبرپارٹی کے رہنماء یونس گاھرسوتورے نے گذشتہ شب ایک پریس کانفرنس میں اپنی ناکامی کو تسلیم کرلیاہے،ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیراعظم ایرنا سولبرگ نے اپنی جماعت کی کامیابی پر کہاہے کہ ان کی حکومت کی اچھی کارکردگی پر لوگوں نے انہیں ووٹ دیئے ہیں۔

تازہ ترین نتائج کے مطابق، حکمران اتحاد کو ناروے کی قومی پارلمان کی ایک سو انہتر نشستوں میں89 نشستیں حاصل ہوگئی ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کو79 نشستیں ملی ہیں۔مختلف سیاسی جماعتوں نے متعدد نارویجن پاکستانی امیدوار بھی کھڑے کئے تھے جن کی جیت کے بارے میں ابھی حتمی خبریں موصول نہیں ہوئیں۔

البتہ ان امیدواروں میں لیبرپارٹی کی ھادیہ تاجیک، ھورے پارٹی کے مدثرحسین کپور اور لبرل پارٹی کے عابد راجہ کی کامیابی یقینی ہے۔ اس بار ناروے میں انتخابی مہم کے دوران کئی پاکستانیوں کا مطالبہ تھا کہ فیملی ویزا کی شرائط نرم کی جائیں۔ خاص طورپر فیملی ویزا کے لیے شریک حیات کی چوبیس سال عمر کی شرط کو متعصبانہ قراردیاگیا۔

یادرہے کہ موجودہ حکمران اتحاد کے حالیہ دور میں فیملی ویزا کے لیے شریک حیات کی عمر چوبیس سال کردی گئی اور ویزا پراسس کو سخت کرکے اس کا دورانیہ پندرہ ماہ کردیا۔ ان شرائط کے تحت ناروے میں رہنے والا اپنے دوسرے فریق کے ویزا کے لیے سالانہ تین لاکھ نارویجن کرائون کی آمدنی کا حامل ہونا لازمی قرار دیاگیاہے۔

حکمران اتحاد کیلئے جو دوسری بار پارلمان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیاہے، یہ مطالبات تسلیم کرنا محال ہے۔ البتہ اگر اپوزیشن پارٹیاں حکومت بنانے میں کامیاب ہوجاتیں تو پھر ان مطالبات پر غور کیاجاسکتاتھا۔

تازہ ترین