• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ٹرمپ نے سانحہ 11؍ستمبر کی سولہویں برسی کے موقع پر پینٹاگان واشنگٹن میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ 11؍ستمبر کی یاد امریکیوں سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ امریکی نائب صدر نے مائیک پنس نے ریاست پنسلوانیا میں اس جگہ پر اجتماع سے خطاب کیا جہاں یونائیٹڈ ائیر لائن کی پرواز 93مسافروں سمیت تباہ ہوئی تھی نائب صدر پنس نے دہشت گردی اور افغانستان کے حوالے سے قوم کو اپنی حکومت کے عزائم کا یقین دلایا ہے۔ وہ اہل پاکستان کے لئے ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ دھمکی سے بھی زیادہ قابل توجہ ہے۔ 11؍ستمبر کی صبح کو تو امریکی میڈیا نے بھی تاریخی طوفان ’’ارما‘‘ کی فلوریڈا اور دیگر ریاستوں میں تاریخی تباہی کو بھی ثانوی حیثیت دے کر سانحہ 11؍ستمبر کی سولہویں برسی کے اجتماعات کو ہی سرفہرست کئے رکھا۔ میں بھی گزشتہ 5سالوں کی طرح اس سال بھی نیویارک میں ’’گرائونڈ زیرو‘‘ کے پرہجوم اجتماع میں کھڑا اسٹیج سے ان 2997 افراد کے ناموں کا اعلان اور خراج تحسین سن رہا ہوں جو 11؍ستمبر 2001ء کے سانحہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اچانک میرے کان میں ایک مسلمان نام بھی سنائی دیا اور میں خود بھی اس روز کی ذاتی تلخ یادوں میں کھو گیا کہ میرے اکلوتے بیٹے ندیم نے اسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے بہت قریب اپنے دفتر کی کھڑکی میں سے دوران میٹنگ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے دھواں اٹھتے دیکھا۔ مجھے فون کرکے خیریت پوچھی میرا ٹی وی آن تھا سو میں نے بھی تصدیق کی بیٹے کو خیال رکھنے کی تاکید کے بعد ’’جنگ‘‘ کو خبر فیکس کرنے میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر نظر آنے والی بگڑتی صورت حال کے تناظر میں بھی بیٹے سے گفتگو کرتے ہوئے طیارے کا منظر دیکھ کر ندیم کو چھٹی لے کرواپس آنے کی تاکید کرتے ہوئے پھر خبر لکھنے بیٹھ گیا اور اقوام متحدہ جانے کا پروگرام منسوخ کردیا۔ اس کے بعد بیٹے سے رابطہ نہ ہوسکا سانحہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بگڑتی صورت حال کی تفصیلات ٹی وی/ ریڈیو سے جوں جوں ملتی گئیں میری ذاتی پریشانی اذیت میں تبدیل ہوتی چلی گئی مگر ندیم کا کچھ پتہ نہ تھا۔ جب اس نے رات گئے مجھے فون کرکے اپنی زندگی اور خیریت کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ وہ کسی محفوظ جگہ پر پہنچ گیا ہے اور کچھ دیر میں گھر بھی پہنچ جائے گا تو اذیت کے خوشی میں بدلنے کا تجربہ بھی بڑا عجیب تھا۔ جب صدرٹرمپ نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ 11؍ستمبر کے سانحہ نے ہم سب کو اور دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے تو پچھلے 16سال کے حالات و واقعات اور اس عرصہ میں تبدیل ہونے والی صدر بش، صدر اوباما اور صدر ٹرمپ کی حکومتوں، امریکی کانگریس، عدلیہ، پینٹاگان اور امریکی معاشرے پر نظر ڈالتے ہوئے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نہ صرف امریکہ اور دنیا تبدیل ہوچکی ہے بلکہ امریکی قائدین ابھی دنیا کو مزید تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں اور قائدین نے تو سانحہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی کمیشن کی رپورٹ بھی نہیں پڑھی کہ وہ اس رپورٹ کی کمی بیشی جاننے اور تجزیہ کرکے اپنے لئے کوئی آسانی کا راستہ ہی تلاش کرلیتے۔ مجھے تو قریب سے گزرنے والا ایک نوجوان کچھ سوال پوچھ کر خیالات سے چونکا گیا۔ اور میں بھی چل کر قریبی فائر بریگیڈ اسٹیشن کی طرف چل پڑا کیونکہ سانحہ میں موت کا شکار ہونے والے ناموں کے اعلان کا سلسلہ ختم ہوچکا تھا یہ فائر اسٹیشن بھی ایک تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔ بہرحال نائب صدر مائیک پنس نے 11؍ستمبر کے حوالے سے دہشت گردی اور افغانستان کا ذکر کرتے ہوئے جن امریکی عزائم کا اظہار کیا ہے وہ نئے وزیر اعظم عباسی کے دورہ اقوام متحدہ کیلئے مزید اور بہتر تیاری اور پاکستان کو پیش آنے والے نئے چیلنجز کیلئے ایک نوٹس بھی ہے۔ نائب صدر مائیک ہنس کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پناہ گاہیں تباہ کر کے ہی دم لیں گے۔ مائیک پنس صدر ٹرمپ کے برعکس کم گو،عملی اور اس امریکی حلقہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جن کا ایجنڈا ریٹائرڈ امریکی جنرلوں اور صدر ٹرمپ کے مشیروں اور پینٹا گان سے مختلف نہیں۔ میری دانست میں فی الوقت امریکی خارجہ اور جنگی پالیسی دونوں پینٹا گون کی سوچ اور اثر کے تحت ہیں۔
ادھر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف دونوں نئی ذمہ داریوں کے تناظر میں نووارد ہیں۔ اور صدر ٹرمپ اور نائب صدر پنس کے بیانات اور دھمکیوں نے پاکستان کو ایسی ڈپلومیٹک اور ڈیفنس ایمرجنسی سے دوچار کر رکھا ہے جو اپنی نوعیت کی پہلی ایمرجنسی ہے کیونکہ سانحہ 11ستمبر کےبعد جنرل پرویز مشرف کو ملنے والی دھمکی خاصی نرم اور سفارت کاری کی بڑی گنجائش لئے ہوئے تھی۔ ثبوت کیلئے جنرل کولن پاول کے دیگر بیانات اور موقف دیکھ لیں۔ اس بار تو صدر ٹرمپ کا یکے بعد دیگرے داخلی بحران،پینٹا گان کا اثر و رسوخ بھارت۔ امریکہ مفادات اور حکمت عملی کا اشتراک اور کئی دیگر عوامل جنوبی ایشیا اور چین کے ارد گرد گھیرا مضبوط کرنے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہنری کسنجر بھی جنگی تھیٹر کی نشاندہی کر رہے ہیں۔سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی جن خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ بڑے حقیقی اور عملی ہیں۔ افغانستان اور بھارت میں جو نقل و حرکت اور تیاریوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔
اس تمام تناظر میں وزیر اعظم عباسی اگلے ہفتے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس سےخطاب کرنے پہلی مرتبہ آ رہے ہیں۔ گو کہ یہ دورہ مختلف ممالک کے درمیان دو طرفہ ملاقاتوں ایک دو کانفرنسوں میں شرکت، امریکی صدر کے عشایئے میں شرکت اور جنرل اسمبلی سے خطاب پر مشتمل ہوتی ہے لیکن جن ممالک کو واقعی خطرات اور تشویش لاحق ہو تو وہ اقوام متحدہ کی اس ایک چھت تلے دنیا بھر کے لیڈروں، سفارت کاروں کی موجودگی کا فائدہ بھی خوب اور خاموشی سے اٹھا لیتے ہیں۔ وزیر اعظم عباسی کا دورہ اقوام متحدہ ان کیلئے ایک مشکل مشن اس وجہ سے ہے کہ پاکستان کا پرانا اتحادی امریکہ اور اسکے موجودہ صدر اب پاکستان سے ناراض اور بھارت کے ساتھ رومانس میں ہیں لہٰذا انہیں ورثے میں جو کچھ ملا ہے وہ ان کا اثاثہ نہیں بلکہ واجبات کی ذمہ داری ہے۔ گو کہ وزیر اعظم عباسی نیویارک کی سڑکوں اور ٹریفک کے ضوابط سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن ملک کو درپیش چیلنجز کی ہنگامی صورتحال میں ڈپلومیسی اور تدارک کے تقاضوں سے نمٹنے کا مشن ان عوامل کی موجودگی میں زیادہ مشکل نظر آتا ہے۔
(1)بھارت۔ امریکہ قربت اور صدر ٹرمپ کے اعلان سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث یورپی ممالک، نیٹو اتحادی،اور امریکہ دوست ممالک کے رویے محتاط ہیں۔ اپنا موقف پہنچانے اور ان کا موقف ’’پگھلانے‘‘ کا چیلنج درپیش ہو گا۔ (2) سلامتی کونسل کے پانچ ویٹو پاور والے ممالک میں سے چین آپ کے ساتھ، روس محتاط اور بقیہ تین کا وزن ایک ہی پلڑے میں ہو گا ،کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے اس کا تعلق نہیں لیکن امن اور جنگ کے معاملات تو سلامتی کونسل سے ہی طے پاتے ہیں۔ (3) جنرل اسمبلی کے اجلاس میں افغانستان ،بنگلہ دیش اور بھوٹان کو بھارت ایک عرصہ سے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف ان ممالک کی تقاریر کے ذریعے پروپیگنڈہ کے مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔
(4) وزیراعظم عباسی 21ستمبر کی سہ پہر کے اجلاس میں بارہویں مقرر ہونگے۔ اگر یہ فہرست یونہی برقرار رہی تو پاکستان میں ان کی تقریر نصف شب کے بعد ہی سنی اور دیکھی جا سکے گی جبکہ اقوام متحدہ میں بھی یہ وقت عصرانوں اور عشائیوں کیلئے تیاری کا وقت ہوتا ہے۔ یوں بھی میری معلومات کے مطابق اس روز کے سہ پہر کے اجلاس میں ایسے ممالک کے سربراہان حکومت اور وزراء تقاریر کر رہے ہیں جن سے عالمی برادری کی دلچسپی اور تنازعات برائے نام ہیں، گنی بسائو، ایل سلواڈور، ایکوٹیرل گنی، سائوٹوم، ٹوگو نامی ممالک وہ ہیں جو ہمارے وزیراعظم سے پہلے اس سیشن میں خطاب کریں گے۔ اقوام متحدہ میں خطاب کرنے والے تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکمرانوں کی تقاریر کا رخ اور مقصد اپنے ملک کے عوام اور پھر تنازعات بارے عالمی برادری ہوتی ہے۔ (5) صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد ’’برکس‘‘ مشترکہ اعلامیہ کا بھی بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور عالمی برادری میں بھی ہمارا تاثر متاثر ہوا ہے۔ ادھر بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج بھی 23ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گی، شنید یہ ہے کہ امریکی حمایت کے بل بوتے پر وہ اس مرتبہ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کا پروگرام رکھتی ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے صدر ٹرمپ کے خطاب میں بھی ہمارا ذکر لانے کے مشورے اور لابنگ جاری ہے۔ (6) پاکستان کے روایتی معذرت خواہانہ رویہ اور خوشامدانہ پالیسی نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔ پرویز مشرف کے یکطرفہ 9سالہ خوشامدانہ پالیسی اور مراعات نے جس طرح پاکستان کو امریکی گود میں ڈالا اس نے ہماری سیکورٹی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ گزشتہ 15سال کے دوران افغان جنگ کے باعث امریکی اعلیٰ فوجی عہدیدار، انٹلیجنس ادارے افغانستان اور پاکستان کے خطے اور اس بارے میں فوجی، غیر فوجی، زمینی، فضائی اور ماحولیاتی حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جنرل میٹاس، جنرل کیلی سمیت متعدد ریٹائرڈ اور حاضر سروس امریکی اب بھارت کے حامی اورساتھی ہیں۔ یہ سب کچھ ہمارے ماضی کے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے۔
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ہمیں ’’فرقہ ملامتیہ‘‘ کی طرح جاری کئے جانے والے اپنے آپ کو شرمندہ کرنے والے بیانات سے بھی گریز کرنا چاہئے بلکہ یہ وقت ہے کہ گزشتہ سالوں میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی معاشی، معاشرتی، جغرافیائی اور انسانی قربانیوں کا خم ٹھونک کر ذکر کر کے موثر موقف پیش کیا جائے اور چین اور روس سے اعتماد اور حمایت کی فضا کو مزید شفاف کیا جائے۔ وزیراعظم عباسی مضبوط ارادوں اور مستحکم موقف کے ساتھ اقوام متحدہ آئیں۔

تازہ ترین