• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات تین بجے کا وقت تھا کراچی جیسا شہر اور پھر اس سنسان علاقے میں جہاں دن میں لوگ آتے گھبراتے وہاں رات کے تین بجے کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ دو گاڑیوں اور ایک بڑے ٹرک میں ڈاکو شہر کے اس انڈسٹریل علاقے میں ڈکیتی کی واردات کے لئے پہنچیں گے، بارہ کے قریب افراد جنھوں نے اپنے چہرے سر کی پگڑیوں سےہی چھپائے ہوئے تھے اسلحے کے ساتھ فیکٹری میں داخل ہوگئے، سیکورٹی گارڈز جو خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھے اچانک ایک درجن سے زائد ڈاکوئوں کی آمد سے گھبرا گئے،ڈاکوئوں نے ان کا اسلحہ اٹھایا اور انھیں لیکر فیکٹری کے پچھلے حصے تک آپہنچے، گارڈز کو اندازہ ہوگیاکہ ڈاکوئوں کو فیکٹری سے کچھ نہیں چاہیے بلکہ انھیں عمارت کےپچھلے حصے میں موجود قربانی کے لئے پالے گئے اعلیٰ نسل کے خوبصورت بیلوں کی جوڑیاں، تندرست و توانا بچھیا، دودھ کے لئے پالی گئی دو عدد بھینسیں اور بکرے اور دنبے چاہئے تھے، یہ تمام جانور کراچی کے معروف صنعتکار دوست نے عید قرباں کے لئے بہت ہی محبت سے پالے تھے لیکن بقرعید سے صرف تین دن قبل ایک درجن سے زائد ڈاکو فیکٹری سے جانور چوری کرکے باہر موجود ٹرک کی جانب رواں دواں تھے، دونوں سیکورٹی گارڈز کو کرسی پر بٹھا کر باندھ دیا گیا ایک گھنٹے کے اندر اندر چھ بیل، دو گائیں، دو بھینسیں اور چھ سے زائد بکرے اور دنبے ٹرک میں لاد دیئے گئے۔ اگلی صبح ملازمین کے آنے کا وقت ہوا تو شور شرابہ ہوا اور قربانی کے شوقین ہمارے دوست اپنی فیکٹری پہنچے اور انھوں نے تمام منظر سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے دیکھا میں جو خود بھی عیدقرباں منانے کراچی پہنچا تھا سلام دعا کے لئے دوست کو فون کیا تو انھوں نے مجھے اپنی فیکٹری بلا بھیجا اور میں بھی اس وقت واردات کا تمام منظر سی سی ٹی وی ویڈیوکی مدد سے دیکھ رہا تھا، کراچی آمد کے ساتھ ہی پہلی انوکھی واردات نظر کے سامنے سے گزری، پولیس میں رپورٹ بھی درج کرادی گئی مجرموں کی گرفتاری تو بعد کی بات تھی لیکن ایک قانون کے رکھوالے نے انتہائی محبت اور رازداری کے ساتھ بتایاکہ اسے معلوم ہے کہ جانور کس نے چرائے ہیں لیکن وہاں سے جانور واپس لانا جان جوکھوں کا کام ہے جو قانون کے رکھوالوں کے لئے مشکل ہے تاہم اگر ہمارے دوست چاہیں تو پانچ لاکھ روپے کے عوض جانور واپس مل سکتے ہیں جس طرح کے جانور تھے شاید ان کی مالیت بیس سے پچیس لاکھ روپے تک تھی لیکن ہمارے دوست کے مطابق انھوں نے قربانی کی نیت سے جانور پالے تھے اور اللہ تعالیٰ انسان کی نیتوں سے آگاہ ہے اور نیت کا ہی اجر ہے لہٰذا وہ کسی بھی طرح کی رشوت کے عوض جانور واپس لینے کو تیار نہ تھے اور اس طرح ان کی عید قرباں جانوروں کی قربانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، کراچی میں جہاں پہلے انسان کی جان و مال محفوظ نہ تھی اب قربانی کے جانور بھی محفوظ نہیں ہیں ٹرکوں پر چوریاں ہورہی ہیں لیکن اندھا قانون مجرموں کو نہ دیکھ پایا نہ پکڑ پایا لیکن مانڈوالی کی آفر ضرور کرڈالی، چند دنوں بعد کراچی کے علاقے حیدری تک جانے کا اتفاق ہوا، سڑکوں کی حالت زار تو اپنی جگہ،راستے میں پڑنے والے گجر نالے کو صاف کرنے کے لئے دس دس فٹ اونچے کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جس سے تعفن دور دور تک پھیل رہا ہے،کچرا ہوا سے اڑ کر گاڑیوں کے شیشوں تک جارہا ہے، سڑکوں کے درمیان نالے اور گرین بیلٹ کچرا گاہ بن گئے ہیں جہاں علاقے کا تمام کچرا لاکر ڈال دیا جاتا ہے گندگی اور غلاظت پوری طرح پھیلی ہوئی تھی،حیدری کا علاقہ بھی الگ منظر پیش کررہا تھا، سو فٹ چوڑی سڑک میں پچاس فٹ کے حصے پر پتھارے لگوادیئے گئے ہیں جن سے روزانہ کی بنیاد پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے جس کے باعث سڑک پر گاڑیوں کے گزرنے کی جگہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ غرض ایک پوش علاقہ بھی گند اور کچرے سے بھرپور نظر آتا ہے، کراچی کو ایک منصوبے کے تحت بیروت بنایا جارہا ہے، کراچی کی گندگی کے حوالے سے گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی کے اہم رہنما سعید غنی سے بات ہوئی شہر کی گندگی کی ذمہ داری ان پر ڈالنے کی کوشش کی تو انھوں نے تمام ذمہ داری کراچی کے نام پر سیاست کرنے والی سیاسی جماعت پر ڈالتے ہوئے کہاکہ پیپلزپارٹی نے بلدیاتی نظام کے ذریعے کراچی کی صفائی کی بہت کوشش کی جس میں کامیابی بھی حاصل ہونے لگی تھی، میڈیا بھی ہماری کارکردگی سراہنے لگا تھا لیکن پھر اچانک پورے کراچی کے گٹر ابلنا شروع ہوگئے، ہماری حکومت کو بھی اس بات پر تشویش تھی کہ اچانک گٹر کیوں ابلنا شروع ہوگئے ہیں،تحقیقات شروع کیں تو معلوم ہوا کہ تقریباََ ہر دوسرے گٹر میں یا تو کوئی کمبل لپیٹ کر ڈال دیا گیا ہے تاکہ گٹر بند ہوجائے یا پھر قالین اور تکیے تک گٹروں میں منصوبہ بنا کر پھنسائے گئے تاکہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو کراچی کی صفائی کا کریڈٹ نہ مل سکے،سعید غنی کے مطابق کراچی پر سیاست کرنے والے ہی کراچی کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، لیکن کسی بھی حالت میں ناکام ہونے کی ذمہ داری حکومت کوہی اٹھانی پڑتی ہے لہٰذا پیپلز پارٹی کراچی کی صورتحال سے منہ نہیں موڑ سکتی،دوسری جانب ایم کیو ایم کے میئر کراچی وسیم اختر شہرکی صورتحال سے مایوس نظر آتے ہیں بقول ان کے اس وقت ان کے اداروں کے پاس کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لئے وسائل ہیں اور نہ ہی فنڈ۔ نہ ہی صوبائی حکومت ان کے ساتھ تعاون کرتی ہے، وسیم اختر نے شہر کی تباہی کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈال رکھی ہے شہر میں کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی جارہی ہے لیکن ان عمارتوں کے لئے حکومت کے پاس پانی نہیں ہے،بجلی نہیں ہے، سیکورٹی نہیں ہے آگ لگ جانے کی صورت میں فائر بریگیڈ نہیں ہے اسنارکل نہیں ہے غرض سٹی گورنمنٹ انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے، کراچی اس وقت سندھ حکومت اور سٹی گورنمنٹ کے درمیان فٹبال بنا ہوا ہے اور دونوں ہی لاتوں سے کراچی کی تواضع میں مصروف ہیں،اب تازہ ترین رسہ کشی وفاق حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان آئی جی سندھ کے معاملے پر ہے،صوبائی وزیر داخلہ اور آئی جی سندھ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں،کراچی میں اسٹریٹ کرائم تو پہلے ہی تھے اب جانوروں کی چوری کے لئے بھی ڈکیتیاں پڑنا شروع ہوچکی ہیں، قتل و اغواکی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، عوام کو کوئی جوابدہ نہیں۔کراچی قائداعظم کا آبائی شہر ہے اور ہمارے حکمراں تو قائد کے گھر کو بھی بار ش کے پانی سے نہ بچاسکے،ہم تو قائد سے صرف شرمندگی کا ہی اظہار کرسکتے ہیں، قائد ہم شرمندہ ہیں۔

تازہ ترین