• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان کی نااہلی کا کیس پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘  میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک تعریف (Definition) جس کی وجہ سے ملک کے وزیراعظم کو نااہل قرار دیدیا گیا، پورے ملک میں سیاسی ہلچل مچ گئی، وزیراعظم کو گھر جانا پڑا، کابینہ تحلیل ہوگئی، نیا حکومتی سیٹ اور نیا وزیراعظم آیا ، مگر اب سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھی گئی اثاثے کی تعریف پر ہی سوال اٹھادیا گیا ہے، جس ڈکشنری کا حوالہ دے کر اثاثے کی تعریف بتائی گئی اور اس کی بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا وہ تعریف بلیکس لاء ڈکشنری میں موجود ہی نہیں ہے، وہ تعریف مختلف ڈکشنریوں میں تو ہے مگر جس ڈکشنری کا عدالت نے اپنے حکم میں لکھا اس ڈکشنری میں نہیں ہے.

یہ بہت اہم ہے کیونکہ دنیا بھر میں بلیکس لاء ڈکشنری قانونی حوالے سے عدالتی فیصلوں کا حصہ بنتی رہی ہے، اس کے علاوہ کسی اور ڈکشنری کی زیادہ اہمیت نہیں ہے،سپریم کورٹ نے اپنے نکتہ نمبر 13میں اثاثے کی تعریف پر بات کی اور لکھا کہ لفظ اثاثے کی تعریف کو بیان نہیں کیا گیا اس لئے اس کی عام تعریف کو سمجھنا ضروری ہے، پھر بلیکس لاء ڈکشنری کا سہارا لیا گیا، عدالت نے باقاعدہ طور پر بلیکس لاء ڈکشنری کا حوالہ دیتے ہوئے وہاں سے لفظ اثاثے کی تعریف لی اور نواز شریف کو نااہل قرار دیدیا گیا، سپریم کورٹ کے حکم میں بلیکس لاء ڈکشنری کا حوالہ دیا گیا مگر یہ تعریف قانونی ماہرین اور دی نیوز کی خبر کے مطابق بلیکس لاء ڈکشنری کے تمام ایڈیشنز میں موجود نہیں ہے، نواز شریف کے وکلاء نے اپنی اپیل میں بھی یہ استدعا کی ہے کہ ہم نے بلیکس لاء ڈکشنری کے ایڈیشنز دیکھے ہیں لیکن اس میں یہ تعریف موجود نہیں جس کا معزز عدالت نے سہارا لیتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دیا ہے۔

منگل کو دی نیوز میں احمد نورانی کی اسٹوری شائع ہوئی ہے، یعنی سپریم کورٹ کے حکم میں جس تعریف کا حوالہ دیا گیا وہ مبینہ طور پر اس اسٹوری اور شریف خاندان کی ریویو پٹیشن کے مطابق درست نہیں ہے، شریف خاندان پہلے ہی عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی درخواست میں موقف اختیار کرچکا ہے کہ عدالت نے جس تعریف کا حوالہ دیا وہ بلیکس لاء ڈکشنری کے کسی بھی ایڈیشن میں موجود نہیں۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ منگل کو دی نیوز اور جنگ میں شائع ہونے والی احمد نورانی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کے فیصلے میں اثاثے کیلئے جس تعریف کا استعمال کیا وہ بلیکس لاء ڈکشنری کی نہیں ہے، حقیقت میں یہ تعریف مارکیٹنگ کی ایک ڈکشنری اے اینڈ سی بلیک سیریز سے لی گئی ہے ، اے اینڈ سی بلیک سیریز قانون کے حوالے سے نہیں بلکہ مارکیٹنگ اور میڈیکل سے متعلق اصطلاحات پر کام کرتی ہے اور قانونی فیصلوں میں اس کا سہارا نہیں لیا جاتا ہے.

خبر کے مطابق بلیکس لاء ڈکشنری کو قابل بھروسہ سمجھا جاتا ہے اور پوری دنیا میں عدالتیں اس وقت اس پر انحصار کرتی ہیں جب ملکی قانون میں کسی اصطلاح کی وضاحت موجود نہ ہو، لفظ اثاثے کی تعریف جو معزز عدالت نے استعمال کی وہ سوفیصد حرف بحرف وہی ہے جو اے اینڈ سی بلیک سیریز کی مارکیٹنگ کی ڈکشنری میں دی گئی ہے، خبر کے مطابق عدالت نے اثاثوں، قابل وصول اور تنخواہ جیسی اصطلاحات سے متعلق ملکی قانون انکم ٹیکس آرڈیننس 2013ء سے مدد نہیں لی ، خبر کے مطابق یہ درست ہے کہ کاروبار کی اکائونٹس بکس بناتے ہوئے قابل وصول کو accrual based accounting system  میں اثاثہ سمجھاجاتا ہے اور اس بات کو بلیکس لاء ڈکشنری بھی سپورٹ کرتی ہے.

احمد نورانی نے اپنی اسٹوری میں بتایا ہے کہ جب بلیکس لاء ڈکشنری میں دیکھیں تو اس میں بھی قابل وصول کو اثاثہ خیال کیا جاتا ہے مگر تنخواہ کے معاملات میں نہیں بلکہ بزنس ٹرانزیکشنز کے معاملات میں ایسا سمجھا جاتا ہے، خبر کے مطابق اگر اثاثے کی یہی تعریف عدالت کے سامنے ٹھیک ہے اور وہ لفظ اثاثے کو ایک نئی منفرد تعریف بھی دینا چاہتی ہے تو اسے چاہئے تھا کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو حکم جاری کرتی کہ تمام پارلیمنٹرینز کو اسی کسوٹی پر پرکھے اور مستقبل میں اسی کی پیروی کی جائے ۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد عمران خان کی نااہلی کا کیس پہلے سے زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، اب سے ایک ماہ پہلے تک لگتا تھا کہ عمران خان کے کیس میں وہ بات نہیں ہے، سپریم کورٹ میں تقریباً ایک ماہ بعد کیس کی دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو ججوں نے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری سے بنی گالہ اراضی کی خریداری کے معاملہ پر وضاحت طلب کرتے ہوئے کئی سوالات کے جواب مانگ لیے، نااہلی کیس میں معاملہ اتنا سادہ نہیں لگ رہا جتنا عمران خان دعویٰ کررہے تھے،منگل کو عدالت نے بارِ ثبوت عمران خان پر ڈالتے ہوئے دو نکات پر وضاحت مانگ لی.

چیف جسٹس نے کہا کہ بنی گالہ جائیداد کیلئے رقوم کی منتقلی کی مصدقہ دستاویزات کہاں ہیں، ایک لاکھ چھبیس ہزار ڈالرز کی تفصیلات کہاں ہیں، سولہ ہزار ڈالرز جو جمائما نے بھجوائے اس کے ثبوت کہاں ہیں، پانچ ہزار ڈالرز بھجوانے سے متعلق بھی ثبوت نہیں ہیں، عدالت نے دستاویزات کی فوٹو کاپیاں مسترد کردیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ نعیم بخاری نے خود تسلیم کیا کہ رقوم کی منتقلی کے حوالے سے کچھ انٹریز متنازع ہیں جبکہ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عمران خان پر الزام لگایا کہ وہ عدالت میں نامکمل اور غلط دستاویزات جمع کروارہے ہیں، چیف جسٹس نے نعیم بخاری سے سوال کیا کہ جمائما کی بنی گالہ کیلئے بھیجی گئی رقم کی دستاویزات کہاں ہیں، آپ نے مختلف درخواستوں میں مختلف موقف پیش کیے ہیں، جمائما خان کے نام پر کس طرح پراپرٹی لی گئی آپ کے جواب میں یہ شامل نہیں ہے، شیخ صاحب کا اعتراض ہے کہ آپ کی دستاویزات مستند نہیں ہیں، نعیم بخاری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جتنی رقم بھی نکلوائی گئی مجاز ڈیلرز کے ذریعے نکلوائی گئی، جس پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ آپ نے پوزیشن لی ہے کہ جمائما نے آپ کو رقم دی اب بارِ ثبوت بھی آپ پر ہے، آپ کو بھیجی گئی رقوم کی کچھ انٹریز کو ثابت کرنا ہے، راشد علی خان کے اکائونٹ سے لوکل اکائونٹ میں پیسے گئے اس کا کیا ثبوت ہے، پانچ ہزار پائونڈ کی انٹری سے کہاں ثابت ہورہا ہے کہ یہ رقم جمائما نے بھیجی ہے، نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ دو تین انٹریز متنازع ہیں باقی پر کوئی جھگڑا نہیں۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم بات ہے کہ نعیم بخاری کی جانب سے عدالت کے رو برو متنازع انٹریز کو تسلیم کیا گیا، عمران خان کے اپنے وکیل کی جانب سے یہ اعتراف سامنے آنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے، دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کچھ دستاویزات کا جائزہ لیا ہے جن کی وضاحت ملنا ضروری ہے، چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وضاحت دینا پڑے گی، الزام یہ بھی ہے کہ جب عمران خان نے 1997ء میں انتخاب لڑا اس وقت آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی، اس کی وضاحت سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ضروری ہے جو آپ کے حق میں آیا۔

تازہ ترین