• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلمی سمندر کی لہروں پر طنز و مزاح سے کھیلنے والا ’لہری‘

کم و بیش ساڑھے تین دہائیوں تک پاکستان کے فلمی سمندر کی لہروں پر طنز و مزاح سے کھیلنے والے ملک کے عظیم کامیڈین لہری کو دنیا سے رخصت ہوئے پانچ برس بیت گئے۔

ان کی وفات کے ساتھ ہی پاکستانی فلمی صنعت میں مزاح کی تاریخ کے تابندہ دور کا آخری روشن ستارہ بھی بجھ گیا۔ اب ان کے بعد فلمی اُفق پر صرف تاریکی ہی ہے۔

lehri01_l

اسکرپٹ سے ہٹ کر سیٹ پر فی البدیہہ ڈائیلاگ کہنے والے لہری بجا طور پر فلمی دنیا میں اپنی طرز کے واحد کامیڈین تھے۔ان کی وجہ شہرت اُردو فلمیں تھیں لیکن انہوں نے کچھ پنجابی فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

زبیدہ، زنجیر، نیاانداز، بہورانی، موم کی گڑیا، جلے نہ کیوں پروانہ میں ان کی پرفارمنس شاندار رہی۔ دل میرا ھڑکن تیری، انہونی، صبح کا تارا، چاہت، ننھا فرشتہ، صائقہ، انجمن اور آج اور کل کا شمار ان کے کیریئر کی بہترین فلموں میں ہوتا ہے۔

افشاں، رم جھم، چھوٹی بہن، بالم، جلتے سورج کے نیچے، پھول میرے گلشن کا، انجان اور پرنس میں مزاحیہ اداکاری کے انمٹ نقوش چھوڑے۔ سال کے ایک برس کے بارہ مہینوں میں ان کی تیرہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ دلنشیں، اناڑی، صورت اور سیرت اسی سال کی کامیاب ترین فلمیں ہیں۔

انہیں مجموعی طور پر گیارہ مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا جو ایک ریکارڈ ہے۔

فلمی دنیا کے زوال پذیر ہونے کے بعد لہری نے مستقل طور پرکراچی میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی۔ فلمی دنیا سے علیحدگی کے بعد وہ چھبیس برس زندہ رہے اور یہ سارا عرصہ انہوں نے کراچی میں بسر کیا۔

اسی دوران انہیں مختلف امراض نے آ گھیرا۔ زندگی کی آخری سانسوں تک وہ بیماری سے لڑتے رہے اور 13 ستمبر 2012 کو کراچی میں وفات پائی۔

تازہ ترین