• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے دادو ضلع میں سہون کے پاس جھانگارا جو سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کا حلقہ بھی ہے وہاں کی ایک میٹرک کی طالبہ اور مزدور کی بیٹی تانیہ خاصخیلی کو وہاں کے ایک مقامی وڈیرے نے مبینہ طور پر گھر میں گھس کر بیدردی سے قتل کردیا ہے۔ قتل کی وجہ لڑکی کے والدین کی طرف سے ملزم کے رشتہ سے انکار اور مقامی کچھ لوگ لڑکی کو وڈیرے کے بار بار تنگ کرنے اور اس سے تعلقات رکھنے سے بچی کا انکار کرنا بتا رہے ہیں۔ لڑکی کے قتل کے دوسرے روز سندھی پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مقتولہ طالبہ کی خون میں لت پت لاش اور مبینہ قاتل کی تصاویر بھی چھپی ہیں جس میں ڈاکو فلم کے پوسٹر کی طرح تین تین کلاشنکوفوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔قاتل وڈیرہ تاحال آزاد ہے ۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے آبائی حلقے میں ہونیوالا غریب کی بیٹی کے قتل کا لرزہ اندام واقعہ تمام حکومتی اور سول سوسائٹی کے دعوئوں کی قلعی کھولتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہے کہ سندھ میں اصل راج بھیڑیوں سے بھی گئے گزرے اکثرغیر درندہ وڈیروں اور انکے قانون شکن وانٹھوں کا ہے۔وانٹھے کیا ہیں؟ ان ہی وڈیروں میروں پیروں سرداروں کی انسانوں کو مسکینوں کو کھانے کی ڈرانٹھیں ہیں۔
اک غریب دیہاڑی دارمزدور نے اپنی بیٹی کو کتنی مشقت اور خوابوں سے پڑھایا ہو گا۔ خاندان اور ذات قبیلے والوں کی باتوں طعنوں اور مخالفت کے باوجود اس ہونہار بچی کو ہائی اسکول تک بھیجا ہوگا جو کہ جھانگارا اور اسکے ملحق بنجارا جیسے دور افتاد گوٹھوں میں بہت ہی غیر معمولی اور ہمت والی بات ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر شاید ہی توجہ دی جاتی ہے اور پھر یہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے والی لڑکی کو ایک غیر درندہ لیکن بھیڑیوں سے بھی گیا گزرا شخص ڈاکو نما وڈیرہ قتل کردے۔ یہ بالکل اسی دن کی رات ہوا جس دن ملک کی سپریم کورٹ نے ابھی سندھ کے آئی جی پولیس کو مکمل اختیارات تفویض کرنے کا سندھ کی حکومت کو حکم جاری کیا۔ اس کو بھی ہفتہ گزرنے کو ہے لیکن تانیہ خاصخیلی کا قاتل تا حال آزاد رہ کر دندناتا پھر رہا ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ ہے کون۔
سندھ میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے جو جامشوروسے جوہی دادو اور لاڑکانہ کے اضلاع میں کاچھو کوہستان تک پھیلے علاقے ہیں کچے اور پکے کی زمینیں ہیں یہاں درندوں سے بھی زیادہ خطرناک کچھ شاہ، پیر، سردار، وڈیرے ان کے وانٹھے یا حواری اور ڈاڈھی اور جبری ذاتوں کے کرمنل ہیں مصیبت یہ ہے کہ وہ ہر پانچ دس میل پر ہیں۔ جامشورو سے لیکر جھانگارا باجارا تک ایسی ’’ڈنگی‘‘ ( خود سر:خود سر کمزوروں کے لئے ) گویا ’’ڈنگی‘‘ ذاتوں کے جرائم پیشہ جنگل اور ان پہاڑوں میں رہنے والے درندوں سے بھی زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں لیکن غریبوں کیلئے۔ کون نہیں جانتا کہ کون مجرم پیشہ کس کا خاص آدمی ہوتا ہے۔ کس کے کون سے وانٹھے ہیں۔ ان کی اوطاقوں پر کورنشیں بجا لانے والوں کو دیکھ کر لگتا کہ تم فارس کےکسی بادشاہ کے زمانوں میں پہنچ گئے ہو۔ ڈاکو ہو کہ سردار جسکی دہشت جھانگارا سے جامشورو تک ہے۔ اب ایسے میں غریب مسکینوں کے مسکین خاصخیلیوں کو، ملاحوں اور ماچھیوں کو کون پوچھتا ہے، انکی بہو بیٹیوں کے ساتھ تو ایسا ہوتا رہتا ہے۔ جوہی کے وڈیروں کی دہشت کو ملکی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو کیا پتہ! اس علاقے میں انکے وانٹھوں کے ہاتھوں سندھ کی کتنی سندھی اور پنجابی بیٹیوں کی بےحرمتی ہوئی یہاں تک کہ قتل تک ہوئے کسی مقامی صحافی نے خبر تک نہیں دی۔ اس سے آگے دو اور قبیلے اپنی شاہی رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے شہزادوں کے ہاتھوں انسانی شکار کی شرارتیں کلفٹن پل کے پار بھی دیکھنے اور سننے کو مل جاتی ہیں۔
یہ جو سہون دھماکے کا مشتبہ سرغنہ جس کو دھماکا ہونے کے فوری بعدایجنسیاں اٹھا کر لے گئی تھیں اس کے کارنامے جوہی شہر سے لے کر تمام کاچھو تک کیا ہیں اور کس کی پشت پناہی سے؟ یہ مقامی وڈیروں سے بھی اوپر کی بات ہے کہ وہ مقامی وڈیروں کا بندہ ہے؟
وہ دادو پولیس ویسے تو اپنے گائوں اور علاقوں سے تیل گیس نکالنے والی کمپنیوں سے محض پانی کی لائن مانگنے پر احتجاج کرنے والوں کو غائب کرکے ان پر سنگین مقدمے بنادیتی ہے لیکن میٹرک کی طالبہ تانیہ کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ناکام کیوں؟ آخر یہ غیر درندہ خونی کس حکومتی وڈیرے یا شخصیت کا بندہ ہے؟ کاچھے سے کشمور تک ایک تانیا کیا کئی تانیائیں ہیں جو بدمعاش وڈیروں اور سرداروں نے قتل کی ہوئی ہیں، اغوا کی ہوئی ہیں۔
ایسے تازہ کیسوں میں سے ایک مثال خیرپور میرس کے گمبٹ شہر کے نجی اسکول میں پڑھانے والی نوجوان ٹیچر آرتی کماری کا مبینہ اغوا ہے\۔اسی دن ایک اور ہندو لڑکی نسرینا بھیل لکھی غلام شاہ شکارپور سے بھی اغوا ہوئی۔ اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ آرتی کماری کی بھی قسمت وہی نکلی جو ابتک سینکڑوں ہندو نوجوان لڑکیوں اور بچیوں کے گھروں سے غائب یا اغوا کئے جانے کے بعد ہوتی رہی ہے۔یعنی میرے جیسے یا لڑکیوں کے لواحقین زبردستی تبدیلی مذہب کہتے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ گھروں سے بھاگ کر مذہب تبدیل کرنے والی نوجوان لڑکیاں اور کئی کیسوں میں نا بالغ بچیاں کیوں ہوتی ہیں۔ نوجوان لڑکے محض ایک آدھ بھی کیوں نہیں گھروں سے بھاگ کر اپنا مذہب تبدیل کرتے۔ اور نہیں تو پکی عمر کی ہندو خواتین کیوں نہیں اپنا گھر چھوڑتیں! پھر اگر ہندو لڑکے مذہب تبدیل کرتے ہیں تو کار ثواب میں نو داخل بھائیوں بیٹوں کو ہم اپنی بہنیں اور بیٹیاں کیوں نکاح میں نہیں دیتے۔ سوائے ایک کیس کے جس میں مجھے پتہ ہے کہ میرے دوست اور نوجوان لکھاری ستیہ پال اپنی ہم کلاس مسلمان لڑکی سے محبت میں گھر سے نکلا تو تبدیلی مذہب پر لڑکی کے والدین نے خوشی خوشی رشتہ میرے اس دوست کو اپنی بیٹی کا دیا ۔

تازہ ترین