• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور آجکل کرکٹ میچز اور الیکشن مہم کی زد میں ہے لوگ گھروں میں کم اور کرکٹ میدانوں اور جلسہ گاہوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔مسلم لیگ ن نے کسی ایک بڑے جلسے کی بجائے ریلی پر زیادہ انحصار کیا ہے۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ علاقے کے ہرگلی کوچے سے گزر کر وہاں کے ووٹرز تک رسائی حاصل کی جائے ۔میزبانی اور محبت سے تو لاہور کی دھڑکن بندھی ہے۔جہاں جہاں سے مریم نواز کی ریلی گزری لوگوں نے پھولوں کی برسات کردی۔پھول بھی گلاب کے اور گلاب بھی سُرخ رنگ کا۔اُسی سے اُن کی سوچ اور وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔مریم نواز کا عملی سیاست کا آغاز ہے اور اُنھوں نے بھرپور طریقے سے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا احساس دلایا ہے۔وہ خوش قسمت ہیں کہ کہنہ مشق سیاست دانوں کی مشاورت انہیں حاصل ہے۔
تو بات ہورہی تھی این۔اے ایک سو بیس کی جس میں چار سو بیسی کےمناظر بھی موجود ہیں ۔دُکھ اور حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک اس میں اصلی مقابلے کی صورت نظر نہیں آتی ۔گزشتہ انتخابات میں ڈاکٹر یاسمین نے یہاں بھرپور جلسے کئے اور اچھے خاصے ووٹ بھی لئے لیکن اس بار اُن کی پوزیشن بالکل مستحکم نہیں لگ رہی ۔
اس کی وجہ کیا ہے یوں تو ہرمعاملے کے پسِ پشت بے شمار وجوہات ہوتی ہیں مگر اس بار وجہ ایک یہ بھی ہے کہ نواز شریف کی نااہلی پر خوشی منانے والے جس تبدیلی کے دعویدار ہیں ابھی تک اس کا ایک بھی نمونہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔عام بندے کو انصاف دلانے اور حقوق کی بات کرنے والی سیاسی جماعت کا ہر رہنما خاص بلکہ بہت ہی خاص زندگی بسر کرتا ہے۔حالت مسلم لیگ کی بھی یہی ہے مگر کم از کم انھوں نے ایسا کوئی دعوہٰ نہیں کیا۔برسوں سے یہ حلقہ نوازشریف کے نام سےمنسوب ہے۔اس حلقے سے ان کا ایک قلبی لگائو ہے تو لوگ بھی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ اُن کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے کو ملک کی سربراہی ملتی ہے۔یہاں معاملہ گلیوں ،سرکاری نوکریوں ،پانی اوربجلی کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ لوگوں کی جذباتی وابستگی اور نظریاتی فکر کچھ اور وجوہات کی بنا پر اس قدرمتحرک اور سیخ پا ہے ۔ہم پاکستانیوں کی عجیب فطرت ہے ۔ہم بڑی محبت کرتے ہیں ۔قربانیاں دیتے ہیں مگر جب کوئی اپنی خواہشات کو ہماری زباں دیتا ہے تو ہم چِڑ جاتے ہیں۔یہ چِڑ بغاوت بن کر ہماری قوتوں کو مجتمع کرتی ہے اور ہم مخالف کے خلاف صفِ آرا ہوجاتے ہیں ۔ نوازشریف کو اقامہ کی وجہ سے فارغ کیا گیا ۔جوملک کی اکثریتی اشرافیہ کے پاس موجود ہے۔اگر مقدمہ جن وجوہات اور اسباب پر آگے بڑھ رہا تھا انہی کے تناظر میں فیصلہ آتا تو شاید اسے تسلیم کرلیا جاتا مگر ایک وزیراعظم کو اقامہ رکھنے کی وجہ سے فارغ کردیا جاتا ہے اور اُس سے پہلے کو محض خط نہ لکھنے کی وجہ سے وزارت اعظم کے قابل نہیں سمجھا گیاحالانکہ آج کل خط لکھنے کا رواج ہی نہیں رہا۔بہرحال جس کے بارے میں وہ خط نہ لکھ سکے وہ قصہ ہی غائب ہوگیا ۔اس سے بڑا لطیفہ کیا ہوسکتا ہے۔بحث یہ نہیںکہ زرداری صاحب پاک صاف ہیں یا نہیں بحث یہ ہے کہ ہر فرد کےلئے بلکہ حکمرانوں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے لئے بھی الگ الگ ضابطے کیوں ہیں یا اُن کی تشریح مختلف حوالوں سے کیوں کی جاتی ہے۔آج ہرطبقہ ء فکر کے لوگوں کے ذہن میں سوالات نے جنم لینا شروع کردیا ہے۔پہلے ایک سرکاری ٹی وی کا گلہ دبا کر اور چند اخبار مالکان کو فون پر دھمکا کر بات دبا دی جاتی تھی ۔اب پرائیویٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پرہر تصویر کا ہر رُخ اس طرح منعکس ہوجاتا ہے کہ کم پڑھے لکھے لوگوں کو بھی معاملات کی اصل شکل نظر آنے لگتی ہے۔
اس فیصلے نےنوازشریف کو ان لوگوں کی ہمدردی کے قریب کردیا ہے جو اسے اور اس کی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔وزیراعظم کی نا اہلی پر اگر ہرفرد گھر سے نہیں نکلا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے اِس فیصلے کو پسند کیا ہے بلکہ اُس کی خاموشی تشویش کا باعث ہے۔وہ حیران و پریشان تجزیے کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔اپنے ملک سے محبت اسے توڑ پھوڑ کی اجازت نہیں دیتی لیکن عوام کی آنکھوں میں دیکھیںتو آپ کو ان میں سوال ابھرتا سنائی دے گاکہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا ۔جمہوری قدروں کا خون کب تک ہوتا رہے گا۔سیاستدان دودھ کے دھلے نہیں مگر باقی اداروں کے افسران بھی فرشتے نہیں ہیں۔ہمیں تدریجی طور پر آگے بڑھنا اور اپنی خامیوں پرقابو پانا ہے۔سیاستدانوں کو بادشاہت کی روش ترک کر کے دیگر جمہوری ملکوں کے سربراہان کی تقلید کرنی چاہئے ورنہ عوام کا بڑھتا ہوا شعور آج جو سوال کر رہا ہے کل اُس کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوگا۔شاہانہ طرزِزندگی کسی ایک فرد تک محدود نہیں ہر جماعت اس معاملے میں متفق ہے۔ مسلم لیگ ن اس مہم میں اس معاملے کو ضرور اہمیت دے کہ آئندہ وہ سادگی کو اپنائے گی،گاڑیوں کی قطاروں سے اجتناب کرے گی ۔تو کافی فرق پڑسکتا ہے کیونکہ طبقاتی فرق نے حدیں عبور کرنے شروع کر دی ہیں
بچوں کی فیسوں بجلی، پانی کے بلوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لئےلوگوں کی نیندیں حرام ہو ںتو دوسری طرف کے شاہانہ مناظر انھیں جمہوریت ،سیاست،حکومت اور ملک سے بد دل کر دیتے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے معاملات کو سنوارا جا سکتا ہے۔اس کے لئے ماضی کی تلخیاں بھول کر نئے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔جو ہوگیا وہ واپس آنے والا نہیں آئندہ ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے سیاستدانوں کی طرف سے سے کوئی ایسا عمل نہیں ہونا چاہئے جو عوام کو متنفر کرنے میں ممدو معاون ہو۔بہرحال بات پھر این ۔اے ایک سو بیس کی جس میں مجھ جیسے جمہوری فکر پر ایمان رکھنے والے فرد کے لئے تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ مخالف پارٹی کے جلسے اور ریلیاں بہت مایوس کن ہیں۔لوگ اپنے ووٹ کے تقدس اور ڈکٹیشن پر عمل نہ کرنے ہو ئے جمہوری عمل کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔اب ایسے شیر دل عوام کے مسائل حل کرنا اور انھیں چین کی زندگی فراہم کرنا کس قدر ضروری ہے۔اس پر سوچنا تمام سیاسی رہنمائوں کی ترجیح ہونی چاہئے ۔اس تمام منظر نامے میںوزیراعلیٰ پنجاب کی انتظامی خدمات لائقِ تحسین ہیں۔جن کے اعلیٰ اقدامات کی بدولت امن و امان سے الیکشن کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر انتخابات ہوتے رہے۔ جمہوریت چلتی رہی تو عوام اپنے ووٹ سے اور اپنی جدوجہد سے پاکستان کو آئیڈیل جمہوری ملک بنانے کے خواب کو تعبیر دیں گے ۔ان شاء اللہ

تازہ ترین