• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما نظرثانی، نااہلی کا فیصلہ متفقہ تھا، بہت احتیاط کی آپ چھیڑ رہے ہیں تو پھر گلہ نہ کریں، سپریم کورٹ

Todays Print

اسلام آباد (رپورٹ /رانا مسعود حسین )سپریم کورٹ نے کہاہے کہ نوازشریف کی نااہلی کافیصلہ متفقہ طورپردیاتھا،ہم نے بہت احتیاط سے کام لیاکہ ہمارے فیصلے سے نواز شریف کاٹرائل کورٹ میںمقدمہ متاثر نہ ہو، اگر آپ اسے چھیڑ رہے ہیں تو بعد میں گلہ نہ کرنا ۔

نوازشریف کیخلاف عدالت عظمیٰ میں پانامہ کیس کے فیصلہ کیخلاف سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کی نظر ثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دورا ن جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ غیر وصول شدہ تنخواہ بھی اثاثہ ہی ہوتی ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے دو فاضل ججز نےنواز شریف کو ان کی جانب سے کی گئی تقاریر کی بنیاد پر ہی عوامی عہدے کیلئےنااہل قرار دیا ہے جبکہ دیگر 3 ججوں نے انہیںاخلاقی نہیں بلکہ قانونی نکات کی بناء پر نااہل قرار دیا ہے ، نیب آرڈیننس کے تحت کسی بھی ریفرنس میں ملزم کو سزا دینے سے قبل قانونی تقاضے پورے کرنا لازمی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایک ارب پتی شہری اور غریب شہری کیلئے الگ الگ قانون ہونا چاہیے جبکہ درخواست گزار نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث احمد نے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے موکل کو براہ راست عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دے کر اپیل کے حق سے محروم کردیا ہے، بلیک لاء ڈکشنری میں تنخواہ کی کئی تعریفیں موجودہیں لیکن عدالت نے صرف ایک تعریف پر ہی اکتفا کیا ہے ، فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہو جانے کی بناء پر سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی.

آج بھی خواجہ حارث کے دلائل جاری رہیں گے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ،جسٹس گلزار احمد ،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل  5رکنی لارجر بینچ نے نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کی تو درخواست گزار نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جن دو فاضل ججز نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جائزہ نہیں لیا تھا ،وہ پانامہ کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے تھے، میرے موکل ( نواز شریف) کو عوامی عہدے سے نااہل کرنے سے قبل انہیں شفاف ٹرائل کا حق دیا جانا چاہیے تھا، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے اس کیس میں جاری ہونے والے 20 اپریل کے دو ججز(جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد ) کے فیصلوں کو چیلنج نہیں کیا تھا ؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ دونوں ججوں کا فیصلہ اقلیتی تھا، اقلیتی فیصلے کو قانون میں اہمیت نہیں دی جاتی ،نظر ثانی کا تیسرا گرائونڈ جے آئی ٹی کی تحقیقات سے متعلق ہے، چوتھا نکتہ نیب کو ریفرنس داخل کرنے اور نگران جج لگانے سے متعلق ہے، انہوں نے کہا کہ نیب کے ریفرنسز میں ٹرائل کی نگرانی کی کوئی عدالتی نظیر نہیں ملتی،میرے موکل کے معاملہ میں عدالت عظمیٰ بیک وقت تفتیش کار، شکایت کنندہ اور ٹرائل کورٹ کا کردار ادا کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فاضل عدالت نے جے آئی ٹی کے ممبران کی تعریف بھی کی ہے تو جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کہ ہم نے تو مقدمہ کی سماعت کے دوران آپ کی بھی تعریف کی تھی، جس پرخو اجہ حارث نے کہا کہ میں اپنی تعریف واپس کرنے کو تیار ہوں۔

جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ ہم آپ کی تعریف واپس نہیں لیںگے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شریف خاندان اپنے خلاف ریفرنسز میں ٹرائل کورٹ میں جے آئی ٹی کےارکان پر جرح کرنے کا اختیار رکھتا ہے،اگر آپ کے موکلین چاہیں تو گواہان پر جرح اور پھر اعتراضات بھی اٹھا سکتے ہیں، فاضل وکیل نے کہا کہ 20 اپریل کا پانامہ فیصلہ تین رکنی اکثریتی بنچ کا تھا جس میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا،20 اپریل کے اکثریتی فیصلے میں جو 13سوالات پوچھے گئے تھے ان کا جواب اقلیتی فیصلے میں تھا،سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کے فیصلے کیلئے 5 کے بجائے تین رکنی بنچ بنایاجبکہ سپریم کورٹ نے 20 اپریل کے فیصلے میں واضح نہیں کیاتھاکہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پانچ رکنی بنچ فیصلہ کریگا یا تین رکنی بنچ کرے گا،جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ نااہلیت کے معاملہ کو جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے کے بعد 5 رکنی بنچ نے طے کرنا تھا،تین رکنی بنچ تو جے آئی ٹی عملدرآمد رپورٹ کی تشکیل کیلئے بنایا گیا تھا.

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تین رکنی بنچ حقائق کی تلاش کیلئے تھا، جب جے آئی ٹی کی رپورٹ جمع ہوئی تو پانچ رکنی بنچ نے اس پر فیصلہ جاری کیا، آپ فیصلہ لکھنے والے ججز کو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے جو فیصلہ دیا آپ اس کے مجاز نہیں تھے؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ پانامہ عملدرآمد بنچ کیلئے فیصلے میں خصوصی بنچ کا ذکر ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے خواجہ حارث سے کہا کہ کیا آپ ہمیں یہ تونہیں کہیں گے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے ججز کی طرح عمل نہیں کیا ،جس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہہ گونجا ، جسٹس کھوسہ نے کہا کہ 20 اپریل کو دو ججز نے اختلافی فیصلہ اورتین ججز نے الزامات کی مزید تحقیقات کرنے کا فیصلہ دیا تھا،20 اپریل کو دو فیصلے دیئے گئے تھے لیکن تین ججز نے یہ نہیں کہا تھا کہ انہیں دو ججز کے فیصلے سے کوئی اختلاف ہے،انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے یا اقلیتی رائے والے ججز آرڈر آف دی کورٹ پر دستخط کرتے ہیں،تمام ججز کا فیصلے پر دستخط کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کا ہے کسی فرد واحد کا نہیں ،پانامہ کیس کے فیصلے کے نتیجے میں کوئی فرق نہیں ، پانامہ کیس کے فیصلے کانتیجہ یہ ہے کہ آپ کے موکل نواز شریف نااہل ہوگئے ہیں.

انہوں نے کہا کہ زاہد رحمان کیس ،21 ویں آئینی ترمیم، 18 ویں آئینی ترمیم، انور سیف اللہ اور تلور کیس میں بھی اختلافی نوٹ لکھے گئے تھے لیکن عدالتی حکم نامہ پر تمام ججز کے دستخط ہیں۔

تازہ ترین