• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبئی ویج پروٹیکشن سسٹم، پاناما کیس پٹیشنرز نے عدالت کو گمراہ کیا رپورٹ:…احمد نورانی

Todays Print

اسلام آباد:…متحدہ عرب امارات میں 2009 میں متعارف کرایا گیا ویج پروٹیکشن سسٹم پر آج بھی پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوتا اور تقریبا 30 فیصد غیر ملکی ملازمین 2016 کے اختتام تک اس کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہوئے تھے۔

پاناما کیس کے درخواست گزاروں نے معزز عدالت کو اس نکتے پر درست پوزیشن سے آگاہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے معزز جج جسٹس اعجاز افضل خا ن نے بدھ کے روز ریمارکس دیے کہ ایف زیڈ ای کپیٹل کے چیئرمین کی حیثیت سے تنخواہ لازما مدعا علیہ نمبر ایک (نواز شریف) کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ہوگی بصورت دیگر ان کا اقامہ منسوخ ہوچکا ہوتا کیونکہ ویجز پروٹیکشن سسٹم کے تحت تنخواہیں الیکڑانک انداز میں منتقل ہوجاتی ہیں۔

جے آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر پاناما کیس کے درخواست گزاروں نے غلط طور پر یہ سمجھا کہ ماہانہ تنخواہ کے الیکٹرانک ٹرانسفر سے متعلق ڈبلیو پی ایس کے قواعد کا محض ذکر سابق وزیراعظم نواز شریف کے دعوے کو جھٹلاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے کبھی تنخواہ نہیں لی۔ سپریم کورٹ کے سامنے یہ کہا گیا تھا کہ نواز شریف 7 اگست 2006 سے 20 اپریل 2014 تک ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین رہے اور معاہدے کے مطابق ان کی تنخواہ 10 ہزار درہم ماہانہ تھی۔

یہ دلیل دی گئی کہ اس تنخواہ کا اعلان نواز شریف نے کیا لہٰذا انہیں نااہل قرار دیا جائے۔ تاہم نواز شریف کے وکیل نے جواب دیا ہے کہ ان کے موکل نے کبھی اپنی کمپنی سے تنخواہ وصول نہیں کی اور کمپنی میں ان کی ملازمت کی حیثیت صرف متحدہ عرب امارات کے ویزے اور سفر ی سہولت کے لئے اقامے کے حصول تک تھی۔ معزز عدالت نے اپنے 28 جولائی کے فیصلے میں اعلان کیا تھا کہ نواز شریف کے وکیل کی جانب سے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ ایف زیڈ ای کپیٹل سے تنخواہ لینے کے حق دار تھےلہذا ان کی وصول نہ کی گئی تنخواہ ، ’’قابل وصول‘‘ تھی جو ان کا اثاثہ ہوا اور اس کا 2013 کے عام انتخابات کے کاغذات نامزدگی میں اعلان نہ کرنے سے آئین کی دفعہ 61 ون ایف کے تحت وہ نااہل ہوتے ہیں۔

دونوں جانب کے وکلا کے دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنے 28 جولائی کے فیصلے میں پاناما کیس کے درخواست گزاروں کے وکلا کی جانب سے پیش کردہ دلائل کا ضرور ذکر کیاجو یہ تھا، یہ کہ مدعا علیہ نے تنخواہ وصول کرنے سے انکار کیا لیکن متحدہ عرب امارات کے ویج پروٹیکشن سسٹم کے تحت تمام ملازمین کی تنخواہوں کی الیکڑا نک طور پر ادائیگی ہوتی ہے اور اس سے ان کا موقف غلط ثابت ہوتا ہے۔ تاہم اس نکتے پر نہ تو کبھی بحث مباحثہ ہوا اور نہ ہی سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسے بنیاد بنایا گیااور نواز شریف کو اثاثے کی تعریف کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا کہ ان کی وصول نہ کی جانے والی تنخواہ ــ’’قابل وصول‘‘ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات جو خطے کا پہلا ملک ہے جس نے مزدوروں کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے حیرت انگیز ڈبلیو پی ایس متعارف کرایا ہے اب بھی اس پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

یہ مسئلہ متحدہ عرب امارات کے میڈیا میں مسلسل زیر بحث رہتا ہے اور یہاں تک کہ وہاں کے اخبارات کی تازہ ترین نمایاں خبریں بھی اس کی عکاسی کرتی ہیں کہ ڈبلیو پی ایس پر پوری طرح عمل درآمد کرنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس معاملے پر ’’دی نیشنل‘‘، خلیج ٹائمز اور گلف نیوز کی خبروں کو باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی حکومت کے حکام کے سرکاری ویب سائٹس پر جاری ہونے والے سرکاری بیانات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ڈبلیو پی ایس کو پوری طرح نافذ کرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ابھی لاکھوں افراد کو رجسٹرڈ کیا جانا باقی ہے۔

متحدہ عرب امارات کی وزارت محنت نے بڑی تعداد میں ملازمین کی حامل کمپنیوں سے ویج سسٹم پر عمل درآمد کا آغاز کیا تھا، ڈبلیو پی ایس سے رجسٹرڈ کمپنیوں کو بھی آغاز میں سخت جرمانے نہیں کیے گئے کیونکہ اس نظام پر عمل درآمد میں عملی مشکلات حائل تھیں۔ یہاں تک کہ جب سخت عمل درآمد شروع ہوا تب بھی کچھ بڑی کمپنیوں کے خلاف جو زیادہ سے زیادہ ایکشن لیا گیا وہ انہیں نئے ورک پرمٹ جاری کرنے سے انکار یا جرمانے عائد کرنا تھا۔

فری زون میں محدود افراد قوت رکھنے والی کمپنیاں جیسے ایف زیڈ ای کپیٹل ابتدائی برسوں میں ریڈار پر بھی نہیں آسکی تھیں لہذا تنخواہ کی عدم ادائیگی کی بنیاد پر اقامہ منسوخ ہونے کا امکان محض قیاس آرائی ہوسکتی ہے۔ ابتدائی برسوں میں کسی بھی کمپنی کے خلاف ایکشن اس وقت شروع ہوتا تھا جب کسی ملازم کی جانب سے تنخواہ ادا نہ کیے جانے کی شکایت کی جاتی تھی۔

یہاں تک کہ آج بھی تنخواہ کی ادائیگیو ں کا ریکارڈ دستیاب ہونے کے باوجود ملازمین کی شکایت کے بعد ہی اقدامات کا آغاز ہوتا ہے۔ تنخواہیں کبھی خود بخود الیکٹرانک طور پر منتقل نہیں ہوتیں جیسا کہ کچھ پاکستانی میڈیا میں بتایا جارہا ہے۔ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ ڈبلیو پی ایس پر عدم عمل درآمد کے ان تمام مسائل کی وجہ سے، 2009 میں وزارتی فرمان کے بعد پھر 2016 میں ایک اور وزارتی فرمان کے ذریعے کمپنیوں پر کنٹرول مزید مضبوط کیا گیا تاکہ ڈبلیو پی ایس پر عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے۔

2016 کا فرمان کیوں جاری کیا گیا تھا؟ اس وقت زیر بحث معاملہ 2013 میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی کے حوالے سے ہے اور فیصلہ غیروصول شدہ تنخواہ کے قابل وصول ہونے اور قابل وصول کے اثاثہ ہونے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

تازہ ترین