• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گھر ٹھیک کرنے کا بیان چار سال کے پس منظر میں تھا،خواجہ آصف

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کیساتھ‘‘میں گفتگو کرتےہوئے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بھارت کی انوسٹمنٹ کا اصل مقصد افغانستان کی خیرخواہی نہیں،افغانستان میں بھارت کا کردار اقتصادی شعبے میں ہوگا،افغانستان میں بھارت کا سیاسی کردار نہیں ہوگا ،بھارت کے سیاسی کردار سے متعلق بھی بات ہوئی ہے ،قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھاجائےگا،افغان مسئلے پر وزیراعظم کو بریف کرچکا ہوں ،ہماری کوششوں کے نتائج اچھے نکل رہے ہیں اپنا گھر ٹھیک کرنے کا بیان پچھلے چار سال کی باتوں کے پس منظر میں دیا تھا،اپنا گھر ٹھیک کرنے کا بیان پچھلے چار سال کی باتوں کے پس منظر میں دیا تھا،،افغان وزیر خارجہ سے میری بات ہوچکی ہے ،دیگر ممالک کے ساتھ بھی امریکا میں ملاقاتیں ہونگی ،امریکا میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کروں گا ،جمعرات کی شام نیویارک جارہاہوں ، تمام ممالک افغانستان کی مدد کریں ، افغان مسئلے کا فوجی حل مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔

وزیرخارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے موقف کو دوست ممالک میں توقع سے زیادہ پذیرائی ملی ہے، بیجنگ، تہران اور انقرہ میں اعلیٰ قیادت سے ہماری ملاقاتیں ہوئی ہیں، تینوں ممالک نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا ہے، تینوں دارالحکومتوں نے افغان مسئلہ کے فوجی حل کو مسترد کرتے ہوئے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا ہے، افغانستان کے مسئلہ کے حل کیلئے خطے کے تمام ممالک کو کردار ادا کرنا ہوگا، افغان مسئلہ کا فوجی حل مزید پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے جمعرات کو نیویارک جارہا ہوں، وہاں دیگر ممالک سے ملاقاتوں میں بھی یہی موقف بیان کریں گے جسے دوست ممالک میں پذیرائی ملی ، نیویارک میں رشین فیڈریشن اور افغان وزرائے خارجہ سے بھی ملاقات ہوگی ، ممکن ہوا تو اشرف غنی سے بھی ملاقات کریں گے، مختلف علاقائی تنظیموں کے اجلاسوں میں بھی افغانستان کا مسئلہ اٹھائیں گے، امید ہے ہماری کوششوں کے اچھے نتائج آئیں گے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ افغان مسئلہ پر وزیراعظم کو بریف کرچکا ہوں، قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے بھی یہ معاملہ رکھا جائے گا، دوست ممالک سے افغانستان میں بھارت کے کردار سے متعلق بھی بات ہوئی ہے، امریکا نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں انڈیا کا کردار سیاسی نہیں اقتصادی شعبہ میں ہوگا، افغانستان کی ترقی میں انڈیا کے ساتھ پاکستان بھی اپنا کردار ادا کررہا ہے، انڈیا کی افغانستان میں سرمایہ کاری اور قونصلیٹ پاکستانی سرحد کے ساتھ ہیں، انڈیا کی سرمایہ کاری افغانستان کی خیرخواہی میں نہیں پاکستان دشمنی میں ہے، انڈیا ہمارے خلاف افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہا ہے، پاکستان کا افغان طالبان پر وہ اثر و رسوخ نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوتا تھا، خطے کے کئی ممالک طالبان پر دبائو ڈال سکتے ہیں، افغان مسئلہ کا علاقائی حل نکالنے کی ضرورت ہے۔

چوہدری نثار کے بیان پر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ چوہدری نثار نے اپنی ذاتی رائے کا اظہار کیا ہے، میرا اس تنازع کو آگے بڑھانا غیر مناسب ہوگا، ایسے کسی مسئلہ پر پارٹی میں تنازع پیدا نہیں کرنا چاہتا، اپنا گھر ٹھیک کرنے کا بیان پچھلے چار سال کی باتوں کے پس منظر میں دیا تھا، میری دانست میں میرا بیان بالکل درست تھا، اگر کسی کو اس سے اختلاف ہے تو وہ اس کا حق رکھتا ہے، اس حوالے سے پاکستان کی سول و عسکری قیادت ایک صفحہ پر ہے۔

وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ شریف خاندان کا نیب عدالتوں میں پیش ہونا صرف نظرثانی کی درخواستوں سے نتھی نہیں ہے، ہمارے کئی قانونی حقوق ہیں جنہیں ہم استعمال کرسکتے ہیں، نظرثانی اپیل میں نواز شریف صرف اپنا حق نہیں مانگ رہے بلکہ نظام عدل کی خامیوں پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں، اگر ایک سابق وزیراعظم کو شفاف ٹرائل اور اپیل کا حق نہ ملے تو نظام عدل پر سوال اٹھتے ہیں۔طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم نے تین ججوں کا فیصلہ ہی ان کے سامنے رکھا ہے،  نواز شریف کو سزا پہلے دیدی گئی اور ٹرائل بعد میں کیا جارہا ہے، شیخ عظمت سعید، اعجاز الاحسن اور اعجاز افضل نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور وہ 184/3میں یہیں فیصلہ سنانے کا حق نہیں رکھتے اور شفاف ٹرائل او ر اپیل کے حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔

طلال چوہدری نے کہا کہ نااہلی کی سزا کے بعد چھوٹی موٹی سزائیں کوئی معنٰی نہیں رکھتیں، اگر گرفتاری تک بات آئی تو اسے دیکھیں گے، ابھی ہمارے پاس بہت سے قانونی اور سیاسی آپشن موجود ہیں، احتساب عدالت کو ریفرنس کا فیصلہ دینے کیلئے ایسے وقت کا پابند بنایا گیا جو الیکشن اور سیاسی معاملات سے میچ کرتی ہے،شریف خاندان کیخلاف سیاسی کیس ہے احتساب تک جانے کیلئے نہیں ہے۔میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر میں پاکستان کے حوالے سے تحفظات کے بعد پاکستان نے سخت ردعمل دکھایا تھا، اعلان کیا تھا پہلے دوست ممالک کے پاس اور پھر امریکا جائیں گے، وزیرخارجہ خواجہ آصف چین، ایران اور ترکی گئے ، روس کے حوالے سے ان کی ملاقاتوں کی بات ہوئی، مثبت باتیں سامنے آئیں مگر کیا واقعی دوست ممالک نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق باتوں کو مسترد کیا ہے، کیا دوست ممالک نے مکمل طور پر پاکستان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پاناما کیس میں اٹھائیس جولائی کے فیصلے کی نظرثانی درخواست پر عدالتی فیصلے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن بدھ کی سماعت کے پہلے ہی دن پانچ رکنی بنچ کے اہم ریمارکس سامنے آئے، شریف خاندان یا ن لیگ ان ریمارکس کو دیکھ کر کسی طرح خوش نہیں ہوسکتے ہیں.

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تنخواہ کا معاملہ بھی اٹھایا، یہ بہت اہم معاملہ ہے کیونکہ اسی بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا، خواجہ حارث نے اس معاملہ پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جو تنخواہ لی نہیں گئی اس پر نااہلی ہوگئی، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہ وہ کیس نہیں جس میں تنخواہ ملازم کے ہاتھ میں دی جائے، خواجہ حارث نے پوچھا کیا تنخواہ اکائونٹ میں گئی؟ دس ہزار درہم تنخواہ وصول نہیں کی گئی، اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے پوچھا کہ آپ کے مطابق دس ہزار تنخواہ تسلیم کرنا نااہلی کیلئے کافی نہیں تھا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میرے موکل کے اکائونٹ میں تنخواہ نہیں گئی، کیا یہ جے آئی ٹی کا کام نہیں تھا کہ وہ تحقیقات کر کے بتاتی کہ اکائونٹ میں پیسے آئے تھے یا نہیں؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قانون کے مطابق تنخواہ ملازم کے اکائونٹ میں جاتی ہے، آپ نے تسلیم کیا کہ آپ کی تنخواہ دس ہزار درہم ہے ، خواجہ حارث نے کہا کہ تنخواہ وصول نہیں کی اس کا مطلب ہے کہ تنخواہ سے تعلق ہی نہیں، کیا جے آئی ٹی نے تنخواہ وصول کرنے کے دستاویزی ثبوت دیئے، اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ معاہدے کے مطابق تنخواہ مقرر تھی، معاہدے میں کہیں نہیں لکھا کہ آپ تنخواہ نہیں لیں گے، وصول نہ کی گئی تنخواہ بھی اثاثہ ہوتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقامہ معطل ہونے کی صورت میں ہی تنخواہ ختم ہوسکتی ہے مگر اقامہ تو ریکارڈ کے مطابق کبھی معطل ہی نہیں ہوا.

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ اثاثہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قبضے میں ہے، اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا بینک میں موجود رقم مالک کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، اگر کسی کے پاس بینک میں پیسہ ہے تو وہ کیا بینک کا ہے، آپ کی یہ دلیل درست نہیں، ساتھ ہی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں اعتراض اٹھایا کہ ڈکشنری میں تنخواہ کی بہت سی تعریفیں ہیں صرف وہی تعریف کیوں چنی جو نواز شریف کے خلاف جاتی تھی، کیپٹل ایف زیڈ ای اور اس کی تنخواہ پٹیشن کا حصہ نہیں تھیں.

اس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ہم نے بیس اپریل کے فیصلے میں لکھا تھا کہ دیگر اثاثے بھی ہیں تو سامنے لائے جائیں، تنخواہ کی تعریف اور نااہلی کے معاملہ پر عدالتی کارروائی کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے بہت محتاط رہ کر فیصلہ لکھا ہے وہ تو صرف ٹپ آف دی آئس برگ ہے یعنی صرف ایک جھلک دکھائی ہے تاکہ ماتحت عدالت میں چیزیں متاثر نہ ہوں، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم باقی بھی لکھیں تو پھر شکایت نہ کیجئے گا، عدالت کے یہ ریمارس بہت اہم تھے کیونکہ کیا عدالت نے مکمل فیصلہ نہیں دیا، کیا بہت کچھ ایسا ہے جو بعد میں ٹرائل کورٹ میں سامنے آئے گا، معاملہ کیا صرف تنخواہ تک محدود نہیں ہے، اس کے علاوہ بدھ کی سماعت کے دوران عدالت نواز شریف کے وکیل کے احتساب عمل کی نگرانی کرنے کے معاملہ پر بھی خواجہ حارث کے دلائل سے متاثر ہوتی دکھائی نہیں دی کہ سپریم کورٹ کے جج نیب کے احتسابی عمل کی نگرانی نہ کریں، خواجہ حارث نے دلیل دی کہ سپریم کورٹ شکایت کنندہ، پراسیکیوٹر اور جج سب خود بن گئی ہے، مانیٹرنگ جج لگانے کی کوئی مثال نہیں ملتی اس سے درخواست گزار کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے.

اس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تحقیقات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، آپ کے پاس موقع ہوگا کہ گواہان اور جے آئی ٹی ممبران سے جرح کرسکیں گے، عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تعریف ضرور کی تھی مگر ٹرائل کورٹ میں اس کی اسکروٹنی ہوگی، ساتھ ہی ٹرائل کورٹ کو آزادی ہے جو چاہے فیصلہ کرے۔

تازہ ترین