• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نااہلی کے لیے باقاعدہ ٹرائل ضروری ہے، وکیل نواز شریف

Trial Is Necessary For Disqualification Khawaja Haris

پاناما کیس میں نظرثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ نااہلی کے لیےباقاعدہ ٹرائل ضروری ہے،ٹرائل میں صفائی کا موقع ملتاہے اورشواہد پیش ہوتے ہیں۔

پاناما کیس میں نواز شریف خاندان کی نظرثانی اپیلوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس گلزاراحمد اور جسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل سپریم کورٹ کا5رکنی لارجر بینچ کررہا ہے۔

نواز شریف کےوکیل خواجہ حارث اور بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا عدالت میں پیش ہوئے ۔

یہ بھی پڑھیے: حدیبیہ کیس میں اپیل کیلئے کون دبائو ڈال رہا ہے؟

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتاہے،الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک ٹرم کےلیے ہوتی ہے، نااہلی کےلیے قانون میں طریقہ کار واضح طورپر درج ہے،تاحیات نااہلی کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ معاہدے میں لکھا تھا نواز شریف کو 10ہزاردرہم تنخواہ ملتی ہے، ہم کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے تھے، کمپنی سےتحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ تنخواہ نہیں لیں گے، قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اثاثے مکمل طور پر چھپانے کےحوالےسےبھی قانون موجودہے، آرٹیکل 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہوتا، نواز شریف کواقامہ اور تنخواہ ظاہرنہ کرنے پر نااہل قراردیا گیا، سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، نااہلی کے لیے بلیکس لاء ڈکشنری میں موجود تعریف کا استعمال کیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دستاویزات کےمطابق تو تنخواہ وصول کی گئی تھی، نواز شریف کے ہی نام پر ایک ذیلی اکاؤنٹ کھولا گیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کےوالیم 9میں ریکارڈ موجودہے، دستاویزات کےمطابق طریقہ کار کے تحت اکاؤنٹ کھولاگیا، نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 کوتنخواہ بھی آئی۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویزات کےمطابق طریقہ کار کے تحت اکاؤنٹ کھولاگیا۔

وکیل نواز شریف کے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا۔

جسٹس عظمت نے کہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے، نااہلی نہیں؟
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا۔

خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ 62ون ایف ایمانداری سے متعلق ہے، اس کیس میں لاگونہیں ہوتا، تنخواہ ظاہر نہ کرنا روپا ایکٹ کے 76اے کے تحت آتاہے۔

وکیل نواز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا، نواز شریف نے کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھا ہی نہیں، اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

یہ بھی پڑھیے: گذشتہ سماعت کی تفصیلات

تازہ ترین