• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس میں نیب بطور ادارہ مکمل طور پر ناکام ہوا،جسٹس عظمت

Nab As An Organisation Failed In Panama Case Justice Azmat

سپریم کورٹ میں پاناما نظرثانی سے متعلق شریف خاندان کی اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت نے ریمارکس دیےکہ سپریم کورٹ یہ بات یقینی بنائے گی کہ مقدمہ میں کوئی تعصب نہ برتا جائے،عدالت پر بھروسہ کریں ، سڑکوں پر نہ کریں ۔ اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حقدار نہیں رہتا۔پاناما کیس میں نیب بطور ادارہ مکمل طور پر ناکام ہوا،درخواست گزارشایدچاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں ، ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر نے بینچ شریف خاندان کی جانب سے دائر نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث اور حسن، حسین اور مریم نواز کی جانب سے سلمان اکرم راجا ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوسرے روز دلائل میں خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کبھی بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا اور تنخواہ ظاہر نہ کرنا روپا ایکٹ کے 76 اے کے تحت آتا ہے اور نواز شریف نے کبھی تنخواہ کو اثانہ نہیں سمجھا جس کی وجہ سے اسے ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اثاثے ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کالعدم ہوتاہے، الیکشن کالعدم ہوتا ہے تو نااہلی ایک ٹرم کےلیے ہوتی ہے، نااہلی کےلیے قانون میں طریقہ کار واضح طورپر درج ہے، تاحیات نااہلی کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق نواز شریف نے تنخواہ وصول کی ، معاہدے میں لکھا تھا انہیں دس ہزاردرہم تنخواہ ملتی ہے، ان کے کیپٹل ایف زیڈ ای کے اکاؤنٹ میں اگست دو ہزار تیرہ کو تنخواہ بھی آئی، اثاثے چھپانے پر صرف الیکشن کالعدم نہیں ہوتا، اثاثے چھپانے والا نمائندگی کا حقدار نہیں رہتا، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔

جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ معاہدے میں لکھا تھا نواز شریف کو 10ہزاردرہم تنخواہ ملتی ہے، ہم کیسے مان لیں وہ تنخواہ کو اثاثہ نہیں سمجھتے تھے، کمپنی سےتحریری معاہدے میں کہیں نہیں لکھا تھا کہ تنخواہ نہیں لیں گے، قانون شہادت میں تحریر کو زبانی بات پر فوقیت حاصل ہے۔

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اثاثے مکمل طور پر چھپانے کےحوالےسےبھی قانون موجودہے، آرٹیکل 62 ون ایف صرف اثاثے چھپانے کے لیے استعمال نہیں ہوتا، نواز شریف کو اقامہ اور تنخواہ ظاہرنہ کرنے پر نااہل قراردیا گیا، سمجھنے میں غلطی پر کہا گیا نواز شریف صادق اور امین نہیں رہے، نااہلی کے لیے بلیکس لاء ڈکشنری میں موجود تعریف کا استعمال کیا گیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دستاویزات کےمطابق تو تنخواہ وصول کی گئی تھی، نواز شریف کے ہی نام پر ایک ذیلی اکاؤنٹ کھولا گیا تھا، جے آئی ٹی رپورٹ کےوالیم 9 میں ریکارڈ موجودہے، دستاویزات کےمطابق طریقہ کار کے تحت اکاؤنٹ کھولاگیا، نواز شریف کے کیپٹل ایف زیڈ ای اکاؤنٹ میں اگست 2013 کوتنخواہ بھی آئی۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نوازشریف کا ایمپلائی نمبر194811 ہے، عدالت نے فیصلہ تسلیم شدہ حقائق پر کیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دستاویزات کےمطابق طریقہ کار کے تحت اکاؤنٹ کھولاگیا۔

وکیل نواز شریف کے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ نہیں کہا تھا کہ اکاؤنٹ چھپایا گیا۔

جسٹس عظمت نے کہا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر روپا کے تحت کارروائی ہونی چاہیے، نااہلی نہیں؟

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ نواز شریف نے تنخواہ والا اکاؤنٹ ظاہر نہیں کیا۔

خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ 62 ون ایف ایمانداری سے متعلق ہے، اس کیس میں لاگو نہیں ہوتا، تنخواہ ظاہر نہ کرنا روپا ایکٹ کے 76 اے کے تحت آتاہے۔

وکیل نواز شریف کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کبھی تنخواہ کا دعویٰ نہیں کیا، نواز شریف نے کبھی تنخواہ کو اثاثہ سمجھا ہی نہیں، اثاثہ نہ سمجھنے کےباعث ظاہر کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل شروع کیے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے اپنے دلائل کے آغاز پر کہا کہ عدالتی فیصلے میں ان کے موکل کے خلاف کوئی حکم نہیں ہے، جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا جب کہ اسے اسحاق ڈار سے متعلق ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔

جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ اثاثے 9 ملین سے بڑھ کر 980 ملین ہوجائیں تو وضاحت ٹرائل کورٹ کو دے دیں جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ 90 گنا اثاثے بڑھ جائیں اور ہم آنکھیں بند رکھیں۔

اس موقع پر اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ اثاثے مختصر وقت میں نہیں بلکہ 15 سال میں بڑھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ آپ کے موکل نے 164 کے اعترافی بیان کو چیلنج کیا جس پر شاہد حامد ایڈووکیٹ نے کہا کہ اعترافی بیان جعلی ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آپ شاید چاہتے ہیں ہم کوئی فیصلہ بھی دیں اور اگر ہم نے فیصلہ دیا تو بہت خطرناک کام ہوگا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آبزرویشن دی کہ آئین پر چلنا کسی کو برا لگتا ہے تو لگے، ہم تو آئین اور قانون کے مطابق ہی چلیں گے، آج آپ کے خلاف فیصلہ آیا ہے تو خدشات کا شکار نہ ہوں، عدالتوں پر اعتماد کریں، عدالتوں نے پہلے بھی آپ کے حقوق کا تحفظ کیا، اب بھی کریں گے، ہم نے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا حلف لیا ہے۔

سپریم کورٹ نے نواز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے اور اسحاق ڈار کے وکیل کے دلائل کے بعد سماعت کل تک کے لئے ملتوی کردی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا کل اپنے دلائل دیں گے۔

تازہ ترین