• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ خراب حکمرانی ہے، سازش ہے یا کسی کی حماقت، نئے سخت پریس قوانین کی تجویز؟ انہیں بھیانک کہا جائے تو بھی شاید کم ہے۔ ڈرافٹ بنانے والے نے کامن سینس تو استعمال کیا ہی نہیں۔ اور اخبار کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہی نہیں۔ اتنے سخت قوانین بنانے کی کوشش کی کہ ان سے پہلے کبھی نہ تھے، اور بن بھی نہیں سکتے تھے۔ پہلے کسی کو کبھی خیال تک نہیں آیا کہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی ؎ـ
یوں قتل سے بچّوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
آج تک ذرائع ابلاغ سے وابستہ حلقے ایک قانون کی ہمیشہ سے مذمت کرتے آئے ہیں اور وہ ہے جنرل ایوب خان کے آمرانہ دور میں نافذ کیا گیا پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس (پی پی او)۔ اخبارات پر پہلے بھی دبائو تھا، مگر اس قانون کے بعد تو حد ہی ہوگئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اُس وقت کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر کی ذہنی اختراع تھی، ستم ظریفی کہ وہ بعد میں ایک اخبار کے مدیر ہوگئے، آزادیٔ صحافت کے چیمپئن۔ ایوب کے دور میں ہی نیشنل پریس ٹرسٹ آف پاکستان کے ذریعے بہت سے نجی اخبارات پر قبضہ کرلیا گیا۔ پاکستان ٹا ئمز، اِمروز، مشرق، انجام اور مغربی اور مشرقی پاکستان(آہ مشرقی پاکستان) کے کئی دوسرے اخبارات حکومت کے قبضہ میں چلے گئے اور آہستہ آہستہ بند ہوگئے۔ ان میں سے کئی اپنے وقت کے بڑے اخبار تھے، آج ان کا نام بھی کسی کو یاد نہیں۔ اس کی ذمہ داری ایک آمرانہ حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ پی پی او کے تحت دوسرے کئی اخبارات کے خلاف بھی کارروائیاں ہوتی رہیں، اس کے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی بڑھتا رہا کہ اس کالے قانون کو ختم کیا جائے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنے سے پہلے اس قانون کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر جب انہیں حکومت ملی تو اسی قانون کو انہوں نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ جس نے ذرا تنقید کی وہ اخبار بند کر دیا گیا۔ متعدد اخبارات بند کئے گئے، حریت، جسارت، انگریزی روزنامہ دی سن، اور بھی کئی۔ مخالفانہ جرائد، الطاف حسن قریشی کا زندگی، حسین نقی کا پنجاب پنچ، پی پی ایل کا لیل و نہار اور کئی اور۔ جس نے ذرا زبان کھولی اس کے اشتہارات بند کردئے گئے، ڈیکلیریشن منسوخ کردیا گیا۔ یہ اختیار اُس وقت ڈپٹی کمشنر کے پاس تھا۔ عدالتیں اس وقت معتبر تھیں، یاد نہیں کوئی ایک بھی حکم برقرار رہا ہو، عدالتوں نے ہر مرتبہ ڈیکلیریشن کی منسوخی غیر قانونی قرار دی۔ جسارت کا ڈ یکلیریشن کئی بار منسوخ ہوا۔ آخری بار اس کے مدیر، صلا ح الدین مرحوم کو پابند سلاسل کردیا گیا۔ وہ تین ساڑھے تین سال جیل میں رہے۔ اخبار بھی بند رہا۔ وہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ہی رہاہوسکے۔ مرحوم غفور صاحب کہا کرتے تھے بھٹو اور جسارت ایک ساتھ نکلیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ ضیاالحق نے انہیں تو رہا کردیا مگر قوم ان کے شکنجے میں جکڑی رہی۔ مارشل لاء کے ساتھ ہی ان کے ہاتھ میں بھی پی پی او کا کالا قانون فعال رہا۔ بھٹو کے دور میں اگر اخبارات پر سینسر لگا تو اخبارات نے یہ آزادی حاصل کرلی کہ سینسر زدہ حصہ خالی چھوڑدیتے تھے، پورے پورے اخبارات سادہ ’’چھپتے‘‘ تھے۔ یہ اندازہ ہوجاتا تھا کہ کہاں جلوس نکلا، لاٹھی چارج ہوا، یا کوئی ایسی کارروائی ہوئی جو اخبار میں شائع نہیں ہونے دی گئی۔ احتجاج کا ایک طریقہ تھا، لوگوں کو پتہ بھی چلتا تھا۔ ضیاء الحق نے جب سینسر لگایا تو ایک دن تو اخبارات سادہ ’’چھپے‘‘ مگر دوسرے ہی دن سیکریٹری اطلاعات کا حکم آیا کہ کوئی جگہ خالی نہیںچھوڑی جائے گی۔ مطلب یہ کہ انفارمیشن افسر جہاں سے خبر نکال دے وہاں دوسری خبر لگائی جائے۔ اخبار والے اپنے ساتھ لکھی ہوئی خبروں کا ایک گتھدہ لے جاتے تھے، اس ہدایت پر عمل ہوتا۔ افسر صاحب، جن کا صحافت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا تھا، جس خبر کو ’’غلط‘‘ سمجھتے نکال دیتے۔ اس کی جگہ گتھدے میں سے دوسری خبرنکالی جاتی اور خالی جگہ پر کی جاتی۔ یوں قارئین اور عوام کو یہ علم ہی نہیں ہو پاتا کہ اخبارات کو سینسر کیا جارہا ہے۔ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کے نام شائع کرنے سے منع کردیا گیا، سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی۔ جو اخبار نام شائع کرنا چاہتے تھے انہوں نے ایک دوسری راہ اختیار کی۔ ایک بار ایم ٹی محمد کی خبر چھپی۔ خود انہیں خبر نہ ہو سکی جن کی خبر تھی۔ ایک اجتماع میں میاں طفیل محمد نے شکایت بھی کی کہ آپ لوگ یا تو خبریں نہیں چھاپتے یا پتہ نہیں کس کس کی خبریں چھاپ دیتے ہیں، یہ کون ہے ایم ٹی محمد؟ دوسرے سیاستدانوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا تھا۔ ان کے نام کی جگہ ان کے مخفّف چھاپے جاتے تھے۔ پی پی او ضیا ء نے بھی ختم نہیں کیا۔ اقتدار کا نشّہ ہوتا ہے، مکمل اقتدار کا نشّہ اور بھی تیز۔
یہ ظلم و ستم کافی عرصہ چلتا رہا۔ مگر ان سب میں سے کسی کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ترکیب کی جائے کہ اخبارات و جرائد نکالنے والے ہر سال حکومت کے کسی گئے گزرے اہلکار کے سامنے پیش ہوں اور اخبار و جرائد شائع کرنے کی اجازت ان سے طلب کریں۔ ان کی مرضی ہو تو دیں، ورنہ منع کردیں۔ پہلے یہ کام کہ اخبارات کو سیدھا رکھا جائے ایک اور طریقے سے کیا جاتا تھا۔ یا تو سرکاری اشتہارات بند کردیئے جاتے تھے یا اخباری کاغذ کا کوٹہ کم کردیا جاتا تھا، یا بالکل ہی بند۔ کاغذ بازار میں مہنگا ملتا تھا، اشتہار پہلے ہی نہیں ہوتے تھے، اخبارات کا کچومر نکل جاتا تھا۔ بہت سے ’’سیدھے‘‘ ہوجاتے، بہت سے اپنی جرأت مندی کا ’خمیازہ‘ بھگتتے تھے۔ ڈیکلیریشن ایک بار مل جائے تو دوبارہ مجاز افسر کے سامنے پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اخبار چھاپتے رہیں، جب تک حکومت ناراض نہ ہو۔ حکمراں جب ناراض ہوتے ان کاایک کارندہ، ڈپٹی کمشنر کہیں جسے، ڈیکلیریشن منسوخ کردیتا تھا۔ جو عدالت سے بحال ہوجاتے تھے۔مشکلات تو تھیں، مگر یہ ’’عالیشان ‘‘ خیال کسی کو نہیں آیا کہ ان ’’بد بختوں‘‘کو ہمیشہ زبردست کے ٹھینگے کے نیچے رکھا جائے۔ ڈرافٹ بنانے والا ملک کی تاریخ سے بھی نابلد ہے۔ ایک ذرا ماضی کا قصہ ہے، جب اخبارات میں سے کسی پر ظلم ہوتا ملک بھر کے اخبارات ایک روزہ ہڑتال تو کرتے ہی۔ کئی بار ایسا ہوا۔ پھر مفادات کا ٹکرائو ہوا، معاملات دوسری سطحوں پر طے ہونے لگے، مالی مفاد بھی اہمیت اختیار کر گئے۔ اب عام طور پر ہڑتال نہیں ہوتی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر کوئی کالا بھجنگ قانون اخبارات پر نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس کے خلاف احتجاج نہیں ہوگا۔ انہیں ابتدائی ردِعمل سے ہی اندازہ ہو جانا چاہئے کہ احتجاج اجتماعی ہوگا۔ اس معاملے میں صحافی اور مالکان ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ابتلا میں سب یہ بھول جاتے ہیں کہ کہاں تنخواہ وقت پر نہیں مل رہی اور کہاںکئی ماہ سے نہیں ملی۔ یہ عارضی مسائل ہیں۔ ہوتا رہتا ہے۔ تلخی بھی آجاتی ہے، مگر یوںنہیں ہوسکتا کہ جب سب پر پڑے تو اس وقت بھی الگ الگ کھڑے ہوں۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا، یہ یقین رکھیں، ڈرافٹ بنانے والے یا بنوانے والے۔
سازش کی بات ہوئی۔ یقیناً کوئی سازش ہوئی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیرِ مملکت کا نام استعمال ہو، اور ان کے بقول، انہیں پتہ بھی نہ ہو۔ کسی نے تو کچھ کیا ہے۔ کسی نے تو کسی کو اکسایا ہے، اور تھپکی بھی دی ہے کہ یہ کام کرڈالو۔ کرنے والوں نے کردیا۔ حماقت تو ہر سطر میں نظر آرہی ہے، اگر آپ ڈرافٹ پڑھ کر دیکھیں۔ ہرسال لائسنس لینے کا معاملہ تو خیر ہے ہی انتہائی احمقانہ، اس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔مثلاً یہ کہ ’مجاز‘ اہلکار کسی بھی دفتر پر چھاپہ مار سکتے ہیں، اور مالکان یا منتظم انہیں تلاشی دینے میں ان کی معاونت کریں۔ یاد نہیں کسی اخبار پر کبھی چھاپہ پڑا ہو، ممکن ہے ایسا ہوا ہو، مگر اکّا دکّا معاملات ہی ایسے ہونگے، کھلی چھوٹ تو کبھی کسی کو نہیں ملی۔ ایک بات یہ بھی لگتی ہے کہ ایک سے زیادہ کمپیوٹر استعمال ہوئے ہیں۔ کہیں dispose off لکھا ہے، کہیں dispose of۔ صفحہ تین پر ایک پوری لائن کے فونٹ کا سائز دوسرے فونٹ سے چھوٹا ہے۔ جن لوگوں کو اتنی عقل نہیں کہ کمپیوٹر پر فونٹ کا سائز یکساںکرنا چند سیکنڈ کا کام ہے، وہ ملک میں پرنٹ میڈیا کو نکیل ڈالنے کی خواہش پالتے ہیں۔
حکومت نے ایک کمیٹی بنا دی ہے، کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی بھی ہوئی ہے۔ ایک عرض مگر یہ ہے کہ ان کی تحقیق میں ہمیں بھی شریک کریں، اخبار والوں کو عوام کو، اور ذمہ داری کا تعین، اگر ہو جائے تو ہمیں بھی بتا دیں۔ آج تک ڈان لیکس کا پتہ چلا نہ اس افسر کا جس نے سابق وزیرِ اعظم کے بیٹے کی تصویر جاری کی تھی۔ اس معاملے میں یہ نہیں ہونا چاہئے، یہ ہونے نہیں دیا جائے گا۔ یہ نواز شریف کا معاملہ نہیں، پاکستان میں صحافت کی بقا کا معاملہ ہے۔ پہلے ہی صحافت پر پابندیاں لگا کر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، مزید برداشت نہیں ہو گا۔ اگر آپ عقل کے ناخن لے لیں تو یہ آپ کے لئے بھی بہتر ہے اور ملک کے مفاد میں بھی یہی ہے۔

تازہ ترین