• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

از مکافات نگر
بلاک نمبر 90
شاہراہِ آئین ہائوس نمبر 6
ڈیئر بھتیجے!! 
نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
اما بعد
السلام علیکم ۔اَم اَم ....اچھا کیا جو موڈی سے ون آن ون مل لیا (تمہیں تو پتہ ہی ہے ہم سارے شروع ہی سے اعجاز الحق کو موڈی کہتے ہیں) موڈی کے ساتھ نواز شریف کا سلوک اچھا نہیں تھا حالانکہ میں نے اپنی ساری سیاسی وراثت نواز شریف کو دیدی تھی اور موڈی کو صرف مالیاتی وراثت دی تھی، دونوں کو مل کر چلنا چاہئے تھا مگر نواز شریف نے وزارت اعلیٰ موڈی کو دینے کی بجائے شہباز شریف کو دے کر بڑی خودغرضی اور بٹر پالنے کا مظاہرہ کیا، میں نے تو اس وقت جنرل جیلانی کو کہا تھا کہ تمہارا ریڈی میڈ سیاستدان ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بار بار گھر والوں‘‘ کے مصداق سب کچھ شریف خاندان میں ہی رکھنا چاہتا ہے۔ آرائیوں کے بے تاج بادشاہ موڈی کو اچھے عہدے دے دیتا تو آج یوں رسوا نہ ہو رہا ہوتا۔
پیارے شاہدی!
مائنڈ نہ کرنا بچپن سے میں اور تمہارا باپ خاقان عباسی ہم تمہیں اسی نام سے بلاتے رہے ہیں کیا ہوا جو تم وزیر اعظم بن گئے ہمارے لئے تو شاہدی ہی ہو۔ کل خاقان نے میرے ساتھ کافی وقت گزارا اور ہم نے طے کیا کہ تمہیں دو محاذوں سے خبردار کر دیں اس لئے اسے خط نہ سمجھنا بیرنگ سمجھنا فوراً ان باتوں پر عمل کرنا جو میں لکھ کے بھیج رہا ہوں۔ دیکھو!! تمہاری وزارت عظمیٰ کو دو طرف سے خطرہ ہے ایک تمہارے خوشامدیوں کی طرف سے اور دوسرا نواز شریف کے خوشامدیوں سے۔ یہ دونوں فریق تمہاری نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ سےلڑائی کروانا چاہتے ہیں آپ ان میں سے کسی کے جھانسے میں نہ آنا۔ تمہارے خوشامدی، تمہاری تعریفیں کر کے تمہیں نواز شریف سے بڑا ثابت کرنے کی کوشش کریں گے اور جونیجو کی طرح یہ باتیں تمہارے سر کو چڑھنا شروع ہو جائیں گی۔ یاد کرو اس وقت تمہارے ڈیڈی نے مجھے آ کر جونیجو کا سارا پلان بے نقاب کر دیا تھا اور پھر میرے کہنے پر خاقان شہید نے نواز شریف سے لابنگ کی تھی یوں ہم نے جونیجو کو بے بس کر دیا تھا۔ آپ بھی اپنے وزیروں سے محتاط رہنا یہ جا کر تمہاری شکایتیں نواز شریف سے بھی کریں گے اور عسکری خان کو بھی تمہارے عیب نکال نکال کر بتائیں گے۔ اَم، اَم، یاد رکھنا ہر روز ایک فون نواز شریف اور ایک فون عسکری خان کو کرتے رہنا تاکہ تمہارا سال ٹھیک گزر جائے۔ شہباز شریف کا خاص خیال رکھنا وہ اپنے بھائی کے کان بھی بھرتا ہے اور چوہدری نثار علی کا بھی مشورہ بیّن ہے۔
شاہدی بیٹے!
تمہیں یاد تو ہو گا جب میں اور خاقان دونوں اردن میں اکٹھے تھے ہمارے خاندان آپس میں ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے تم اور موڈی مل کر بھاگا دوڑی کھیلا کرتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ خاقان عباسی اوجھڑی کیمپ دھماکہ کا میزائل لگنے سے شہید ہو گیا وگرنہ میں خاقان عباسی کو وزیر دفاع بنانے والا تھا۔ آپ بھی مہربانی کر کے موڈی کو وزیر دفاع بنا دو تاکہ وہ بھی اسمبلی کا آخری سال ہوٹر اور سرکاری پروٹوکول کے ساتھ گزار سکے۔
پیارے ترین بھتیجے!!
ہمارا آپس کا تعلق 35،40سال پرانا ہے آپ ہمارے خاندان کا دکھ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اختر عبدالرحمٰن نے اپنے بچوں کے لئے بہت کچھ چھوڑا وہ تو اب صنعتکار بن چکے ہیں جبکہ موڈی اور انوار الحق سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بیٹی زین کا تو میں زندگی بھر کا بندوبست کر آیا تھا۔ مہنگے ترین ای 7سیکٹر اسلام آباد کی ایک کوٹھی کا کرایہ اسے ہر ماہ ملتا رہتا ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ موڈی کو کوئی پرمٹ یا ٹھیکہ دے دو ہاں البتہ اس کے سیاسی کیریئر کو یقینی بنا دو وہ بیچارا کبھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ، کبھی راولپنڈی سے اور کبھی بہاولنگر سے جا کر الیکشن لڑتا ہے۔ لگتے ہاتھ نواز شریف سے بھی موڈی کی ملاقات کروا دینا۔ میں نے کل میاں طفیل سے ملنے کی کوشش کی وہ مجھے صلاح الدین ایوبی کے برابر درجہ دیتے تھے مگر مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی نے میاں طفیل محمد کو جلی کٹی سنائیں اور انہیں قائل کر لیا ہے کہ میں نے پاکستان کو تخریب کاری، کلاشنکوف اور ہیروئن کے تحائف دیئے ہیں۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا اور جا کر مولانا مودودی کے کمرے میں بیٹھ گئے ناچار مجھے واپس آنا پڑا ۔
بیٹے شاہد!!!
تم تو گواہ ہوتم ہی بتائو میں نے آخر کون سی غلطی کی ہے کہ تاریخ کا سارا گند ہی میرے منہ پر ملا جا رہا ہے۔ A case of Exploding Mangoesوالے محمد حنیف نے تو حد ہی کر دی ہے۔ میری اس طرح سے کردار کشی کی ہے کہ میرے ساتھی جنرل مجھے دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ میرا بس چلے تو سب کو سرعام کوڑے مروا دوں مگر یہاں میرا حکم نہیں چلتا۔ اگر موقع ملے تو کسی تقریر میں، تاریخ میں میرے سنہری کردار کے بارے میں واضح کر دینا تاکہ زمین پر میرے بارے میں پھیلی افواہیں ختم ہو سکیں۔
اَم اَم، باقی یہاں آجکل حالات بڑے کشیدہ ہیں۔ عالم بالا کے جمہوریت پسندوں نے نظریۂ ضرورت بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کرنے والے اور پی سی او پر حلف اٹھانے والے عدالت خانوں کا سماجی بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ نظریۂ ضرورت والے جسٹس منیر نے ایک کتاب ’’جناح ٹو ضیاء‘‘ لکھ کر فلور کراسنگ کر لی ہے اور آجکل جمہوریت پسندوں کی پچھلی نشستوں پر برا جمان ہوتا ہے۔ بھٹو نے یہاں مجھے تنگ کر رکھا ہے۔ بے نظیر کے آنے کے بعد وہ یہاں اور مضبوط ہو گیا ہے۔ بے نظیر روز ایک نئی تقریر لکھ کر اپنے والد کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے۔ بھٹو نے جناح اور فاطمہ جناح سے بہت بنا رکھی ہے ہر وقت ان کے قدموں میں بیٹھا رہتا ہے اور ہمارے خلاف بھڑکاتا رہتا ہے۔ جمہوریت پسندوں نے اگلے روز اسکندر مرزا کو غدار قرار دے کر اپنی صفوں سے نکال دیا ہمارے کیمپ کے جنرل ایوب خان اسے لینے پر راضی نہ تھے مگر میں نے منا لیا اب اسکندر مرزا اپنے جد امجد میر جعفر کی طرح سازشیں بتاتا رہتا ہے۔ ٹیپو سلطان نے ایک لمبا چوڑا خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسکندر مرزا کو اپنے گروپ سے نکالو یہ غدار ابن غدار ہے۔ ابھی اس پر ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔ باقی یحییٰ خان ہر وقت مدہوش پڑا رہتا ہے۔ حمید گل البتہ بہت متحرک ہے اور نرم انقلاب کے حوالے سے اب بھی پُرامید ہے۔
ڈیئر شاہدی!
اَم اَم...میں اب اپنا خط ختم کرتا ہوں کیونکہ کرنل قذافی اور صدام حسین ابھی کسی بات پر لڑ پڑے تھے جس پر بڑا ہنگامہ ہوا، قذافی کو چوٹیں لگ گئیں ہم خود حیران تھے کہ کیا کریں وہ تو اچھا ہوا کہ خوفناک الارم بجا اور یہ دونوں بھاگ کر اپنے اپنے کیبن میں جا بیٹھے۔ ہم نے جا کر دونوں کو سمجھایا بجھایا، اب صلح چل رہی ہے۔ میرا آخری مشورہ یہ ہے کہ امریکہ سے ڈیل اچھی کرنا، مونگ پھلیوں کے بدلے اپنے اثاثے ختم کرنے اور نئی افغان جنگ کے لئے تیار نہ ہونا۔ والسلام
تمہارا تایا...محمد ضیاء الحق

تازہ ترین