• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صہیونی نظریہ آج کے دور میں صرف یہودی قومیت اور یہودی سرمایہ داری کی اجارہ داری ہی کا نظریہ نہیں ہے بلکہ نسل پرستی اور اسلام دشمنی پربھی مبنی ہے اسرائیل کے قیام سے قبل صہیونی مفکروں اور دانشوروں نے اپنے ایک مضمون ( مضامین) میں عجیب وغریب منطق پیش کی کہ وہ یہودیوں کے سوا فلسطین میں رہنے والے باقی عربوں کو وہاں کا شہری تسلیم نہیں کرتے۔ اس نرالی منطق کے مطابق تقریباً ساٹھ لاکھ یہودی تو فلسطینی قرار دے دیئے گئے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ عربوں کو مہاجر بنادیا گیا ۔ اسرائیل کے قیام کے چند دنوں بعد ہی صہیونی لیڈروں نے ایک نیا نعرہ بلند کیا کہ دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین لاکر بسایا جائے گا اور اس کے کچھ ہی عرصے بعد یہ قانون بنادیا گیا کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیلی شہریت حاصل کر سکتے ہیں یہ قانون یکم اپریل1952کو نافذ کیا گیا ۔ یہ کوئی پہلی اپریل کارروائی مذاق نہیں تھا بلکہ اسرائیل کا ایک سنجیدہ اقدام تھا کہ اس دن سے اسرائیل حکومت نے عرب وفلسطینی دشمنی کا کھل کر مظاہرہ کرنا شروع کردیا وہ دن جائے اور آج کا آئے کہ اسرائیل نے اپنے اس گھنائو نے مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر ہر حربہ استعمال کرناشروع کیا ہوا ہے۔ اسرائیلی مفکروں اور دانشوروں نے ان مضامین میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسرائیلی یہودی اپنے بعض اصولوں پر سختی سے قائم ہیں مثلاً اسرائیلی غیر یہودی کو انسان تصور کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، بعض نے غیر یہودیوں سے کسی قسم کے لین دین یا تعلقات کو سختی سے بند کر رکھا ہے ماسوائے ان لوگوں کے جو شاید کسی وقت مفید ثابت ہوسکیں مضمون میں کہا گیا ہے کہ جب ایک غیر یہودی زندگی کے آخری سانس لے رہا ہوتا ہے تو یہودیوں کیلئے خوشی کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ ایک غیر یہودی کو ’’ دھکا دینا‘‘ یا کسی مصیبت میں مبتلا کرنا اسرائیلی حکومت کے نزدیک کوئی برائی نہیں ہے اور وہ گوشت کا ٹکڑا غیر یہودی کودینے کی بجائے کتے کے آگے ڈال دینے کو ترجیح دیتے ہیں اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ یہودی آپس میں بھائی بھائی ہیں( اسی لئے اسرائیلی ایجنسیوں کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ ایک اسرائیلی یہودی وزیر اعظم اسحاق رابن پر قاتلانہ حملہ بھی کرسکتا ہے) اور انہیں ایک دوسرے کی ہرحال میں مدد کرنی چاہیے اور یہ کہ غیر یہودیوں کے مقابلے میں متحد رہنا چاہیے کہ وہ کتوں سے بھی بدتر ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکومت نے معرض وجود میں آتے ہی عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کا آغاز کردیا تھا ۔ اقوام متحدہ ہی کی رپورٹوں کے مطابق دیکھا جائے توآج تک اسرائیلی حکومت ہزاروں عربوں اور ہزاروں فلسطینیوں کوتباہ وبرباد کرچکی ہے۔ پچھلے دنوں ہالینڈ کے ایک بین الاقوامی قانون کے ماہر پی ون ڈیک نے عربوں کی بے دخلی پراپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقیقتاً ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودی اسرائیل ریاست کوصرف یہودیوں کیلئے ہی مخصوص کرنا چاہتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے کہ جرمن نازی یہودیوں کو بےدخل کرکے جرمنی کو صرف نازیوں کی ریاست بنانا چاہتے تھے وہ عرب یا فلسطینی جواب بھی اسرائیل میں موجود ہیں ان کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی سی ہے کہ ان سے تمام شہری حقوق چھین لئے گئے ہیں تاہم کبھی کبھار اسرائیل کے اندر سے بھی اس ظلم وستم کے خلاف آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں اسرائیل کی انسانی اور سول حقوق لیگ کے چیئرمین نے مشرق سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک خصوصی کمیشن کے نام اپنی ایک یادداشت میں لکھا ہے کہ فلسطین کے مزدوروں اور دیہاڑی داروں کو یہودی مزدوروں کے مقابلے میں بہت کم تنخواہ ملتی ہے کہ ان کی تنخواہ پہلے تو حکومت کے پاس جاتی ہے اور پھر اسکا20فیصد کاٹ کر بقیہ ان کو دے دیتی ہے۔ اسرائیل کے سماجی اور سیاسی نظام کے امریکی محقق ولیم ڈان نے اس بات پر اصرار کیا ہے کہ دستوری طور پر اسرائیل چونکہ ایک یہودی ریاست ہے اس لئے وہاں یہودیوں اور غیر یہودیوں میں فرق جائز ہے۔ صہیونیت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کے قدیم باشندے ہیں اور یہودی قوم ایک مشترکہ جذبے ، مسلسل جدوجہد ، واحد مذہب اور ایک مخصوص تاریخ کی مالک ہے۔ صہیونی مفکر یہودیت کے اس عقیدے کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں کہ یہودی خدا کی پسندیدہ نسل ہے اور اس طرح نسل پرستی کے جذبے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں ( نازیوں کی بھی جرمن آرین کے بارے میں یہی سوچ وفکر تھی) اسرائیل میں نسل پرستی کا یہ رویہ عربوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حکمران طبقہ یورپی یہودیوں اور افریقی وایشیائی یہودیوں میں بھی نمایاں طور پر تفریق کرتا ہے اسی لئے افریقی ایشیائی اور عرب یہودیوں کودوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یورپی یہودی اعلیٰ عہدوں پر فائز نظر آتے ہیں اور ملک کے اہم فیصلوں کو اپنے ذہن کی کسوٹی پر جانچتے ہیں اور ریاستوں کے اہم فیصلوں میں صرف انہی کاعمل دخل ہے جبکہ دیگر یہودی معاشرے کی نچلی سیڑھی پر کھڑے ہیں ۔ آج اسرائیل فسطائیت کی بدترین مثال ہے اسکی تمام پالیسیاں عرب دشمن اور نسل پرستی پر مبنی ہیں مگر اسرائیلی لیڈروں کویہ بات واضح طور سمجھ لینی چاہیے کہ یورپ کی فسطائی طاقتوں کی طرح ایک دن اس کوبھی شکست کامنہ دیکھنا پڑے گا اور عظیم اسرائیل کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
تم کو خلوت کی ضرورت ہے نصیحت کی نہیں
اپنی صحبت میں رہو گے تو سدھر جاؤ گے

تازہ ترین