• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے پاس اب کیا راستہ رہ گیا ہے ، جس پر چل کر وہ ’’ احتساب ‘‘ کی مزید گرفت سے بچ سکیں اور اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنا سکیں ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے ، جو نہ صرف پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کے ذہن میں ہے بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) والے بھی اسی سوال میں الجھ گئے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے پاناما نظر ثانی کیس میں تمام اپیلیں مسترد کر دی ہیں ، جو سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، ان کے بچوں اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے دائر کی گئی تھیں ۔ 5 رکنی بنچ نے میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے ۔ ماہرین قانون کو بھی یہی توقع تھی کہ نظرثانی کی اپیلیں مسترد ہو جائیں گی ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ نظرثانی کی اپیلوں پر ریلیف ملے یا جج صاحبان اپنا پہلا فیصلہ تبدیل کر دیں ۔
پاناما کیس میں نظرثانی کی اپیلیں صرف دستیاب قانونی آپشن اختیار کرنے کی لاحاصل سعی اور اتمام حجت کے سوا کچھ نہیں تھیں ۔ میاں محمد نواز شریف کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ مکمل طور پر بند ہو چکا ہے ۔ اب ان کے لئے دو راستوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے حالانکہ ان کے پاس ایک تیسرا راستہ بھی ہے ، جو بالآخر وہ اختیار کر سکتے ہیں ۔ ایک راستہ یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم اور ان کے بچے ٹرائل کورٹس یعنی احتساب کورٹس میں اپنے خلاف دائر ریفرنسز میں اپنا دفاع کریں اور وہاں سے ریلیف حاصل کریں ۔ یہ ریفرنسز قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق وزیر اعظم ، ان کے بچوں حسن ، حسین اور مریم نواز ، ان کے داماد کیپٹن (ر) صفدر ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف دائر کئے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کے قریبی لوگوں کو ٹرائل کورٹس سے ریلیف ملنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ ان کا موقف یہ ہے کہ ٹرائل کورٹس نے جو کام کرنا تھا ، وہ کام سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ( جے آئی ٹی ) سے کرایا گیا ہے ۔ جے آئی ٹی کے ارکان اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر مسلم لیگ (ن) کو تحفظات ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کا یہ بھی موقف ہے کہ ٹرائل کورٹس پر بھی سپریم کورٹ کے ایک جج کو نگران مقرر کیا گیا ہے ، جو پہلے ہی میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو قانونی راستہ سے انصاف ملنے کی توقع نہیں ہے ۔ اگرچہ عدالتوں میں میاں نواز شریف کے وکلاء عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرتے رہیں گے لیکن مسلم لیگ (ن) اس قانونی راستے پر مکمل انحصار نہیں کرے گی ۔
اس حقیقت سے ساری دنیا بشمول شریف خاندان سے آگاہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے ۔ چار عشروں تک میاں محمد نواز شریف کو سیاسی طور پر پاکستان کے سسٹم میں پروان چڑھایا جاتا رہا اور انہیں عدالتوں کی طرف سے وہ ریلیف ملا ، جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ انہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ’’ ڈارلنگ ‘‘ کی حیثیت سے وہ استثنیٰ ( Immunity ) حاصل تھا ، جو فی زمانہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو حاصل ہے ۔ اس وقت میاں محمد نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ بہت سے حلقوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا ۔ اگر اس صورت حال کو عرب دنیا کے بحران کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کو منطقی انداز میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ عرب دنیا کے داخلی طور پر مستحکم تقریباً تمام ملکوں میں سیاسی اور حکومتی قیادت ختم ہو چکی ہے اور ہم نے صدام حسین اور کرنل قذافی کے جسمانی طور پر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ حسنی مبارک کو پنجرے میں عدالتوں میں لاتے دیکھا ہے ۔ بہار عرب کے نام سے وہاں کرپشن اور آمریت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی تھی ، جو تباہی و بربادی اور انتشار پر ختم ہوئی ۔ میاں نواز شریف بھی اسی تناظر میں معاملات کو شاید دیکھ رہے ہوں گے ۔ ان کے خلاف حدیبیہ پیپرز مل کا کیس بھی دوبارہ کھل رہا ہے ۔ ماضی میں جو رعایتیں ملی تھیں ، وہ واپس لی جا رہی ہیں ۔
اس وقت اپنی سیاسی بقا کے ساتھ ساتھ میاں محمد نواز شریف کو فوری مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو ’’ قانون اور احتساب ‘‘ کی مزید گرفت سے کیسے بچائیں ۔ وہ اس کے لئے سیاسی راستہ اختیار کر سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں وہ عوام سے رجوع کر سکتے ہیں ، جیسا کہ ان کے سیاسی مشیران بھی انہیں مشورہ دے رہے ہیں ۔ وہ عوامی جلسوں میں ایسی باتیں کرنے پر مجبور ہوں گے ، جو انہوںنے اب تک نہیں کی ہیں ۔ یہ عوامی رابطہ مہم پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ہیئت مقتدرہ کے ساتھ تصادم کی طرف لے جائے گی ۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی ’’ گرینڈ ڈائیلاگ ‘‘ والی تجویز کو آگے بڑھائے گی لیکن فوج اور عدلیہ اس ڈائیلاگ میں بطور فریق کیونکر شریک ہو نگے ، یہ ایک اہم سوال ہے ۔ میاں نواز شریف کی ’’ عوامی طاقت ‘‘ بھی حالات کو نہیں بدل سکے گی ۔ اس کے بعد تیسرا اور آخری راستہ ان کے پاس یہ رہ جاتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو استعمال کریں ۔ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی آئینی ترامیم کی جا سکتی ہیں ، جو عدلیہ کے اختیارات اور فوج کے کردار سے متعلق ہو سکتی ہیں ۔ میاں نواز شریف کے پاس اس وقت سب سے بڑی طاقت پارلیمنٹ ہے ۔ اگر انہوں نے اس مرحلے پر پارلیمنٹ سے کام نہ لیا تو تھوڑے عرصے بعد یہ ہتھیار بھی ان کے ہاتھ میں نہیں ہو گا ۔ پارلیمنٹ کیا راستہ اختیار کرتی ہے ، اس پر میاں نواز شریف کے سیاسی مستقبل اور پاکستان کی سیاست کا انحصار ہے کیونکہ میاں نواز شریف کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

تازہ ترین