• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Muslims Will Have To Face Challenges With Widespread Thinking

مسلمانوں کو وسیع تر سوچ اور جدید طریقوں سے سوسائٹی میں درپیش نمایاں چیلنجوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ خاص طور پر مغربی معاشرے میں بسنے والے مسلمانوں کو روایتی طریقوں کے بجائے انسانیت اور انسانی حقوق کے بارے میں نئے رحجانات سے کام لینا ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار ناروے کے دارالحکومت اوسلوکے لیٹریچر ہاوس میں ہفتے کے روز ایک سمینار کے مقررین نے کیا۔

’’سماجی تبدیلی کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام اسلامک کلچرل سنٹر ناروے نے کیاجسمیں بڑی تعداد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےوالے لوگوں نے شرکت کی۔

نارویجن محقق اور سماجی امور کے ماہر لارش گولے نے خاص طورپر مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق پر اپنا روایتی رویہ تبدیل کریں۔

سیمینار کے نمایاں مقررین میں جارج ٹاون یونیورسٹی امریکہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جوناتھن براون اور برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے ادارے مارک فیلڈ کے پرنسپل ڈاکٹر پرویز زاہد تھے۔

مقررین نے کہاکہ مسلمانوں کو محدود فکر کے بجائے وسیع تر سوچ اپنانی چاہیے، خاص طورپر انسانی حقوق کے حوالے اپنے محدود فکر کے بجائے آفاقی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی بات بھی کرنی چاہیے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے، ڈاکٹر زاہد پرویز جو ای۔ڈیموکریسی اور اسلامی نقطہ نظر سے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے متعدد ریسرچ پیپرز لکھ چکے ہیں، نے کہاکہ اسلام انسانیت کا دین ہے اور خاص طورپر مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو معاشرے کے اجتماعی مسائل سے نمٹنے کے لیے فعال کردار ادا کرناچاہیے۔

انھوں نے کہاکہ اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ ہم سوسائٹی کے مسائل کے حل میں مدد دیں۔ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور یہ ہمیں ہرصورت کرناہوگا۔

انھوں نے بطور مثال کہا، ’’میں اپنے آبائی وطن واپس نہیں جاوں گا، مجھے اپنی رہتی زندگی اسی معاشرے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہنا ہے لہذا مجھے معاشرے کے مسائل کے حل میں اپنا کردار ادا کرناہوگا۔‘‘

پروفیسر جوناتھن براون جو اسلامی تہذیب کے بارے میں گہرا مطالعہ رکھتے ہیں، نے قرآن کے مقصد اور سنت کی اہمیت کی وضاحت کی۔

انھوں نے مذہب میں حجاب کی حقیقت کے بارے میں کہا کہ عیسائیت میں بھی حجاب کا استعمال ایک لمبے عرصے تک رہاہے اور پھر جب سے معاشرتی آزادی آئی ہے، ہرکسی کو حق ہے کہ وہ کس طرح کا لباس پہنے۔اس موضوع پر نارویجن سکالر لارش گولے نے تشویش ظاہرکرتے ہوئے کہاکہ مسلمانوں کو معاشرے میں ضم ہونے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ انھوں نے حجاب کو مسلط کرنے والوں پر بھی تنقید کی اور کہاکہ عورت اور مرد
کو برابر پیدا کیاگیاہے۔

مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں انھوں نے کہاکہ مسلمان جب صرف اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اپنے آپ کو محدود کرلیتے ہیں۔

اس سے ناروے سمیت یورپی معاشرے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید مسلمان صرف اپنے ہی حقوق کی بات کرتے ہیں اور ان کو دوسروں کی کوئی فکر نہیں۔ انھوں نے کہاکہ مسلمانوں کو مشرق وسطیٰ سمیت دیگر ممالک میں عیسائی اقلیتوں کے حقوق کی بھی بات کرنی چاہیے۔

تازہ ترین