• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیئرمین قومی احتساب بیورو ( نیب ) قمر زمان چوہدری اگلے ماہ اکتوبر میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں ۔ نیب کے چیئرمین کی تقرری کیلئے آئین میں جو طریقہ کار درج ہے، اس کے مطابق اب تک نئے چیئرمین کی تقرری کیلئے کام ہی شروع نہیں کیا گیا ہے ۔ اس شعوری یا لا شعوری تاخیر کی وجہ سے نیب جن اہم ریفرنسز پر کام کر رہا ہے، ان کی منظوری دینے یا منظور شدہ ریفرنسز کی پیروی کیلئے آئندہ ماہ سے نیب کا سربراہ نہیں ہو گا کیونکہ حکومت اگر آج ہی نئے چیئرمین کے انتخاب کیلئے کام شروع کر تی ہے تو اس کام کے مکمل ہونے میں تین یا چار مہینے لگ سکتے ہیں ۔اس مرتبہ چیئرمین نیب کے نام پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مابین اتفاق پیدا کرنے کیلئے وقت زیادہ درکار ہو گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے تعلقات کی نوعیت 2013 ء والی نہیں ہے ۔ نیب نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور سندھ حکومت کے افسروں کے خلاف جو کارروائیاں کیں، اس پر پیپلز پارٹی کی قیادت سخت ناراض ہے ۔ دونوں جماعتوں کے درمیان نئے چیئرمین نیب کے نام پر اتفاق پہلے سے زیادہ مشکل ہو گا ۔
اس مرحلے پر جبکہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف بڑے ریفرنسز نیب کورٹس میں ہیں ۔ حدیبیہ پیپرز مل ریفرنس میں لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف نیب کو اپیل ایک ہفتہ میں دائر کرنا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف ناجائز اثاثہ جات ریفرنس کے فیصلے کو چیلنج کرنے کی تیاری ہو رہی ہے اور پورے ملک میں بلا امتیاز اور بڑے پیمانے پر احتساب کا مطالبہ ہو رہا ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کی اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے چیئرمین نیب کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ تاریخی پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے نیب کی کارکردگی پر سخت تنقید کی ہے اور یہ قرار دیا ہے کہ احتساب کا یہ ادارہ عملاً مردہ ہو چکا ہے ۔ اس وقت جبکہ کسی بھی سبب سے پاکستان میں عدلیہ کے ذریعے احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور پورا پاکستان کرپشن کیخلاف بے رحمانہ احتساب کیلئے بے قرار ہے، نیب کے معاملات اور کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں احتساب کا ایک آزاد اور قابل اعتماد ادارہ موجود نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک احتساب کے اداروں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی ہے لیکن موجودہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) اس شکل میں جمہوری حکومتوں کی پیداوار ہے ۔ نیب آرڈی ننس اور نیب کا انتظامی ڈھانچہ جمہوری حکومتوں نے سوچ بچار کے بعد بنایا ہے ۔ اس داغ کو دھونا اس ادارے کیلئے موجودہ چیئرمین کی موجودگی میں ناممکن نہیں ۔ احتساب کے ایک مضبوط نظام کے بغیر جمہوری معاشرے کے قیام کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی جمہوری ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں ۔ نیب کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف پاکستان کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جو واچ ڈاگ کی حیثیت سے کام کرتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر پاکستان میں احتساب کے ادارے مضبوط ہوتے تو مبینہ کرپشن اور دولت کی ملک سے باہر منتقلی کے ایسے معاملات سامنے نہ آتے، جنہیں پاناما اسکینڈل نے بے نقاب کیا ۔ اس قدر بڑے اسکینڈل کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بھونچال آگیا تھا اور سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی مرضی سے پاناما کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ پاناما پیپرز ہی میں بہت بڑے ثبوت موجود تھے لیکن باقی معاملات کی تحقیقات کیلئے نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، ایف بی آر اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داری پوری نہ کر سکے ۔ اس کیس نے ہی اس خوف ناک حقیقت کو آشکار کیا کہ پاکستان میں احتساب کے ادارے نہ صرف بدترین کارکردگی کے حامل ہیں ان میں زبردست سیاسی مداخلت کی وجہ سے ان اداروں کی غیر جانبداری بھی متاثر ہوئی ہے ۔ پاناما کیس کی وجہ سے قوم کو پہلی مرتبہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں کرپشن کس قدر زیادہ ہے اور ہمارا سارا سرمایہ باہر کیسے جا رہا ہے ۔ لوگ یہ جان کر کانپ گئے ہیں اور پوری قوم اس بات پر متفق ہے کہ احتساب کے کمزور اداروں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے ۔
نیب ایک ایسا ادارہ ہے، جو پاکستان میں کایا پلٹ سکتا ہے ۔ اس ادارے پرپاکستان میں منصفانہ اور جمہوری معاشرے کے قیام کی ذمہ داری ہے ۔ آزاد اور غیر جانبدار ہو ۔ کسی کے اثر و رسوخ کو قبول نہ کرے اور احتساب کے نام پر لوگوںکو بلیک میل اور تنگ کرنے والا ادارہ بھی نہ ہو ۔ اس طرح کے ادارے کے قیام کیلئے سب سے پہلے چیئرمین نیب کی تقرری کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا ہو گا ۔ موجودہ طریقہ کار کے تحت ایک غیر جانبدار، آزاد اور قابل اعتماد نیب کا قیام ممکن نہیں ہے کیونکہ قومی اسمبلی میں قائد ایوان ( وزیر اعظم ) اور قائد حزب اختلاف اتفاق رائے سے چیئرمین نیب کا تقرر کرتے ہیں ۔ جو لوگ آج حکومت میں ہیں، وہ بعد میں اپوزیشن میں جا سکتے ہیں یا اس سے پہلے اپوزیشن میں رہے ہوں گے اور جو لوگ آج اپوزیشن میں ہیں، وہ ماضی میں بھی حکومت میں رہے ہونگے اور آئندہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں ۔ کرپشن کے زیادہ تر مقدمات اپوزیشن اور حکمراںسیاسی جماعت کے ادوار کے بنتے ہیں ۔
لہٰذا وہ کسی ایسے شخص کو چیئرمین نیب مقرر نہیں کریں گے، وہ کبھی بھی کسی نیوٹرل، غیر جانبدار، ایماندار اور Courageousشخص کو چیئر مین نہیں بنا سکتے، جو ان کے خلاف مقدمات قائم کر سکے ۔ موجودہ چیئرمین چوہدری قمر زمان پر بھی کئی حلقوں نے شروع سے اعتراضات کئے ہیں کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ان کی قربت رہی ہے ۔ اگر اب بھی نیا چیئرمین ا یسے شخص کو مقرر کیا گیا تو پھر معاملات کو ٹھیک کرنے کیلئے دیگر اداروں کی مداخلت ہو گی ۔ اس صورت حال سے بچنے کیلئے ضرورت ہے کہ چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے ۔
آئین میں ترامیم کر لی جائیں ۔ اس ضمن میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی تجویز پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ۔ اس تجویز کے مطابق چیئرمین نیب کی تقرری کیلئے سپریم کورٹ کے چار یا پانچ سینئر ججوں اور ہائیکورٹس کے چیف جسٹس پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔
سیاسی جماعتیں اس کمیٹی کو چیئرمین نیب کیلئے متعدد نام ارسال کریں اور کمیٹی ان میں سے یا کسی اس نام کے بھیجی ہوئی لسٹ سے ہٹ کر مناسب انتخاب کرے ۔ اس انتخاب سے ایک غیر جانبدار چیئرمین نیب کی تقرری کے امکانات زیادہ ہوں گے ۔ ہمارے سیاست داںاب تک اس منزل پر نہیں پہنچے ہیں کہ یہ کام ان پر چھوڑ دیا جائے ۔ پاکستان میں بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ شدت اختیار کر رہا ہے ۔ چیئرمین نیب کی تقرری کے موجودہ طریقہ کار سے نیب اپنی تاریخی ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا۔

تازہ ترین