• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس ریاست میں قانون کی عمل داری نہ ہو وہاں مختلف پریشر گروپس جنم لیتے ہیں اورہر پریشر گروپ اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی تگ ودوکرتا ہے۔ دھونس ایسے معاشرے کاکلچر بن جاتاہے۔ پریشر گروپس انصاف کومانتے ہیںنہ ہی انسانیت کو۔ ہم تو اس بدقسمت معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایمرجنسی کے اسٹریچر پر آخری سانسیں لیتے حضرت انسان کو مرنے کے لئے چھوڑ کرڈاکٹر ہڑتال پر نکل آتے ہیں، مرضی کا فیصلہ لینے کے لئے وکیل جج کاگریبان پکڑ لیتاہے۔ ملتان میں وکلاء کی طرف سے جج کو ہراساں کرنے کی بات ابھی پرانی نہیں ہوئی کہ وکلاء کے ایک جتھے نے سرگودھا میں خاتون اسسٹنٹ کمشنر کوکمرہ عدالت میں بند کردیا۔ اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لئے ججوں پر دھونس جمانا، انہیں دھمکانا اوران کی عزت کے پرخچے اڑانا،مجرموںکو من پسند فیصلے نہ ملنے پر انصاف کے ایوانوں سے فرار کرانا اورروکنے پرپولیس کے گریبان چاک کرنا معمول بن گیا ہے۔ جس معاشرے میں انصاف نہ ہو وہ تباہ ہوجاتاہے۔ یہاں تو انصاف افراد میں ہے نہ ہی اداروں میں۔ ہر گروہ شدت پسند ی پر اتر آیا ہے۔ یہ شدت پسندی نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کررہی ہے۔ وکلاء برادری تعلیم یافتہ طبقہ ہی نہیں بلکہ دیگر طبقات پرانہیں یہ فو قیت حاصل ہے کہ یہ قانون جانتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اسی قانون کو توڑنے کے لئے ان میں سے بعض نے جتھے بنا رکھے ہیں وہ دلیل کی بجائے دھونس کو ہی انصاف سمجھنے لگے ہیں۔ دوسروں کو شعور دینے والا جب خود بہرہ اوراندھا ہوجائے تو ماتم کرنے کو جی چاہتاہے۔ جن لوگوں کو روشن خیال ہونا چاہئے وہ جاہلیت کی حدوں کو چھو رہے ہیں۔ بابائے قوم کے پیشے کو اختیار کرنے والے آج عدل و انصاف کو اپنے پائوں تلے روند رہے ہیں۔ بار اور بنچ کے ملاپ کی منطق ہی نرالی ہے۔ یہ ملاپ ہماری سمجھ سے باہر ہے جس کو معزز جج صاحبان اور وکلاء دونوں ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ کیسا رشتہ ہے۔ بنچ کابار سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے البتہ انتظامی امورپر رائے وکلاء سے لینے میں کوئی حرج نہیں۔ بار کے تحفظات انتظامی حد تک توسُنے جاسکتے ہیں مگر بار درونِ پردہ عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوگی یہ تو انصاف کاگریبان پکڑنے کے مترادف ہے۔ قانون و انصاف سے اس قسم کا کھلواڑ سیاسی جماعتیں بھی کررہی ہیں۔ پانامہ کیس پرعدالتی فیصلے کون لیگ نے ہوا میں اچھال دیا۔ عمران خان اس فیصلے پر شادیانے بجارہے ہیں مگر ان پر جومقدمات ہیں ان پر وہ عدالت کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ عدالت نواز شریف کے خلاف فیصلہ کرے تو پیپلز پارٹی کو قبول ہے، آئی جی سندھ کے معاملے میں سندھ حکومت کے خلاف فیصلہ کرے تو پیپلز پارٹی کوقبول نہیں۔ ہر کوئی اپنی عدالت لگانا چاہتا ہے اور اپنی مرضی کا انصاف چاہتا ہے۔
جب بھی کسی سیاسی جماعت کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو وہ بھی ایک پریشر گروپ کی شکل اختیار کرکے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ فیصلے سے قبل ہی ایسی بیان بازی شروع ہو جاتی ہے جو عدالت کے باہر عدالت لگانے کا مجموعی تاثر اُبھارتی ہے۔ پاناما کیس کے مقدمے میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ مگر عدالت عظمیٰ کسی سیاسی جماعت کا اثر قبول کرنے کے بجائے ناک کی سیدھ پر چلتی رہی۔ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ شریف خاندان کی نظرثانی اپیلیں مسترد کردی گئی ہیں۔ نظرثانی کی صورت میں ن لیگ کو جو اُمید تھی وہ بھی ختم ہوگئی ہے۔ ن لیگ کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اپیل کا حق یہاں دہشت گردوں کو تو مل جاتا ہے مگر وزیراعظم کو نہیں ملا۔ ان کی نظرمیں یہ فیصلہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ نظرثانی کی اپیل مسترد ہونے کے بعد ن لیگ بظاہر جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی البتہ سیاسی پتے ضرور کھیلے گی۔ دوسری طرف توہین عدالت کیس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ عمران خان ایک طرف تو پانامہ کیس کے فیصلے پر عدالت کے فیصلے پر جھوم رہے ہیں مگر دوسری طرف وہ اپنے خلاف مقدموں میں عدالت یا الیکشن کمیشن میں پیش ہونے پر حیل و حجت سے کام لے رہے ہیں۔ یہ سیاسی رویے ہمارے مجموعی رویوں کے عکاس ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران ہی نہیں ہم سب اپنی مرضی کے فیصلے عدالتوں سے چاہتے ہیں اور اگر فیصلے ہماری مرضی کے نہ ہوں تو عدالتوں پر چڑھائی کردیتے ہیں۔ پانامہ نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ کے معزز جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر اعتماد کریں، سڑکوں پر نہیں۔ مگر ن لیگ عدلیہ پر اعتماد کرتی نظر نہیں آتی۔
قانون و انصاف کے خلاف اگر ہمارے رویے یہی رہے تو ہم بری طرح بکھر جائیں گے۔ اداروں پر عدم اعتماد سے ملک میں انتشار پھیلے گا اور ہم بدامنی کا شکار ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہم دھونس دھاندلی، جبر اور ناانصافی کی دلدل میں کیوں رہنا چاہتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک انفرادی طور پر ہمارے اندر انصاف کے احساس کا فقدان رہے گا ہم بوسیدہ نظام کا حصہ بنے رہیں گے۔ سیاست دان جو سیاسی نشتر چلا کر عوام کو شکار کرتے ہیں وہی نشتر عدالتوں پر چلانا چاہتے ہیں۔ عوام بغور جائزہ لے رہے ہیں کہ کون کیا کررہا ہے۔ عوام کی عدالتیں لگانے والوں کے دعوے داروں نے عوام کی اینٹ سے اینٹ بجا رکھی ہے۔ ان اینٹوں کے عوض وہ عوام سے ووٹوں کی برسات چاہتے ہیں۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے انصاف کرتے ہوئے سیاست دانوں کے حق میںفیصلہ کرتے ہیں یا کسی نظام کا خیر مقدم، اداروں کے درمیان ٹکرائو اور کرپشن بچائو مہم کے نام پر سیاسی جماعتوں کی رسہ کشی نے نظام حکومت مفلوج کردیا ہے۔ ہر طرف مایوسی کے سائے ہیں جو چھٹتے نظر نہیں آتے۔ عدلیہ اور مقننہ کے درمیان شدید تنائو کی کیفیت سے جمہوریت دائو پر لگی نظر آتی ہے۔ انصاف اور احتساب کا جو جھکڑ چلا ہے تھمتا نظر نہیں آتا۔ بڑے بڑے چہرے بے نقاب ہوں گے۔ موجودہ بحرانی صورت حال میں میری رائے ہے کہ عبوری نظام حکومت سے فوری نجات حاصل کی جائے۔مڈٹرم انتخابات ایک حل ہے مگر متنازع مردم شماری کے نتائج کی صورت میں اس پر فوری عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ میرے خیال میںٹیکنوکریٹس کی حکومت کا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت مستقبل کے اہم فیصلوں بارے جو کھچڑی پکانے کی کوشش کررہی ہے شاید اس بار انہیں یہ موقع میسر نہ آسکے۔ فی الحال تو اسی پر گزارہ کریں کہ ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا،خدا جانے۔ دعا ہے اس بار کوئی ’’امپورٹڈ آئٹم‘‘ نہ ہو۔

تازہ ترین