• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدانوں کی کون سی کل سیدھی ہے۔اس کا اندازہ لگانا شاید بہت ہی مشکل ہو۔ ابھی ایک دوسرے پر کیچڑاُچھال رہے ہوتے ہیں تو پھر اپنے منشور کو مشن اسٹیٹمنٹ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اب تو انہوں نے قوم کے ساتھ مذاق کو بھی منشور کا حصہ بنا لیا ہے جیسے آصف زرداری نے پچھلے دنوں پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی اور نہ کبھی کرپشن کو پرموٹ کیا —نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کا کچھ نہ بنا تو اقامہ پر نکال دیا گیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ این اے 120کے ضمنی الیکشن سے پتہ چل جائے گا کہ لوگ چور کے ساتھ ہیں یا عدلیہ کے۔سیاستدانوں کے یہ مذاق تو چلتے رہتے ہیں لیکن ’’ کالے بابو‘‘حکمراں اور سیاستدان جو سنگین مذاق نظام تعلیم کے ساتھ کررہے ہیں اب شاید قوم میں سکت نہیں رہی کہ وہ یہ برداشت کر سکے۔ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہم یہ طے ہی نہیں کر سکے کہ ذریعہ تعلیم اردو ہوگا یا انگریزی کیونکہ ایک وہ مخصوص طبقہ ہے جو ذہنی طوپرر آج بھی غلامانہ سوچ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے شاید شاہ برطانیہ کے زیر تسلط ہے وہ سختی کے ساتھ اس چیز کو سپورٹ کرتا ہے کہ ابتدا سے ہی ذریعہ تعلیم انگریزی ہونا چاہئے کیونکہ انگریزی زبان کو بین الاقوامی حیثیت حاصل ہے، اگر ہم کو ترقی کرنا اور ترقی یافتہ دنیا کی صف میں اپنے آپ کو کھڑا کرنا ہے تو پھر انگریزی ہی ذریعہ تعلیم اور دفتری زبان ہونی چاہئے۔ دوسرا طبقہ جو اس ملک کی اکثریت ہے، کا کہنا ہے کہ مخصوص طبقے کی یہ سوچ کہ اگر دفتری زبان اردو ہوگئی، تعلیمی اداروں میں ذریعہ تعلیم اردو ہوگیا تو پھر عام اور غریب کا بچہ بھی پڑھ لکھ کر ہمارے مقابلے میں آ جائے گا، غریب کے بچے کو بھی حکومت کرنے کے گُر مل جائیں گے، وہ بھی بڑی بڑی کمپنیوں کا مالک بن جائے گا، اس کی نسلیں بھی خوشحال ہو جائیں گی۔ اس لئے ’’ کالے بابو‘‘قومی زبان اور مادری زبانوں کو پھلنے پھولنے نہیں دیتے۔ جہاں تک ترقی سے انگریزی زبان کو جوڑنے کا تعلق ہے،اس سے کمزور ترین کوئی دلیل ہوہی نہیں سکتی کیونکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن میں جاپان، جرمنی، چین، فرانس اور روس وغیرہ شامل ہیں کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان تمام ممالک میں ذریعہ تعلیم ان کی مادری اور قومی زبانیں ہیں۔ اس لئے قوم سے یہ بھونڈا مذاق بند ہونا چاہئے۔ ہم دنیا میں اپنے آپ کو ایک قوم ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کے طور پر اُس وقت تک نہیں منوا سکتے جب تک ملک کی اکثریتی آبادی کو ملک کے نظم و نسق میں شامل نہیں کرتے اوریہ صرف اُسی صورت ممکن ہے جب سب کے لئے انصاف، ایک جیسا نصاب، نظام تعلیم اور ایک ہی زبان میں کتابیں ہوں، اردو کو نام نہاد قومی زبان سے نکال کر عملاًقومی اور دفتری زبان کے طور پر اپنایا جائے۔ جبکہ پرائمری تک تمام صوبوں میں اُن کی مادری زبانوں میں تعلیم دینی چاہئے کیونکہ اس وقت مادری زبانوں خصوصاً پنجابی کو ختم کرنے کے لئے مسلسل سازشیں ہورہی ہیں۔جس کی وجہ سے نوجوان نسل کی اکثریت پنجابی اور اردو زبان سے واقف ہی نہیں اور نہ انہیں لکھنی آتی ہے۔ جہاں تک انگریزی کا تعلق ہے وہ بھی اکثریت کے بس کی بات نہیں۔اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ انگریزی زبان پڑھی اورلکھی نہ جائے اور پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کو پرموٹ نہ کیا جائے۔ 1973ء کے آئین میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر آئندہ پندرہ برس میں مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔
اس لحاظ سے یہ مدت 1988ء میں ختم ہو جاتی ہے لیکن افسوس کہ ہماری حکومتوں نے44سال میں اردو کی ترویج کے لئے کچھ نہ کیا اور ہر آنے والی حکومت گزشتہ حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتی رہی۔ جسٹس ایس خواجہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز پہلے 12سال سے زیرِ سماعت اردو زبان کے نفاذ کے کیس میں ایک تاریخ ساز فیصلے میں (14ستمبر 2015ء ) یہ حکم دیا کہ اردو کو بطور دفتری اور سرکاری زبان تین مہینے کے اندر نافذ کیا جائے لیکن افسوس کہ آج دو سال ہونے کو ہیں مگر نہ حکمراں سنجیدہ ہیں اور نہ ہی ’’کالے بابو‘‘ دورِ غلامی سے نکلنا چاہتے ہیں مجھے تو جسٹس ایس خواجہ کے وہ ریمارکس یا د آرہے ہیں کہ انگریز 1947ء میں چلے گئے مگر انگریزی زبان کی وجہ سے ہم آج بھی ملکہ برطانیہ کے غلام ہیں —لیکن اب یہ مذاق قوم سے نہیں چلے گا!
پائی پائی فراڈ!
آج کے کالم کا اوپر والا حصہ اور یہ سطور قارئین کی طرف سے موصول ہونے والے خطوط میں اٹھائے گئے سوالات کی روشنی میں لکھا گیا ہے۔ دوسرا اہم سوال جو قارئین نے اٹھایا ہے کہ حکمراں قوم کے ساتھ مذاق،مذاق میں ان کے اربوں روپے لوٹ رہے ہیں، چونکہ عوام کی اکثریت اس کو مذاق سمجھتی ہے اسلئے آواز نہیں اٹھاتی۔ یہ مذاق ملک کی کرنسی کے ساتھ ہے۔ ابھی تک پاکستان کی جو کرنسی ہے اس کے مطابق ایک روپے میں سوپیسے ہوتے ہیں جبکہ حکومت نے مدت سے یہ سکہ بنانا بند کر دیئے لیکن حساب کتاب میں یہ پیسے اُسی طرح گنتے ہیںمگر ادا نہیں کئے جاتے بلکہ یہ’’ سفید ڈکیتی ‘‘ہے جس کے ذریعے اربوں روپے عوام کے لوٹے جارہے ہیں پیسے تو دور کی بات، پہلے تو ایک روپیہ،دو روپے اور پانچ روپے کے نوٹ ختم کر دیئے گئے جبکہ ان کی سکیّ بھی معدوم ہوچکے ہیں۔ پھر پانچ روپے کا ایک پیسے کے برابر سکہّ جاری ہوا۔ اب دس روپے کا سکہّ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ لیکن آپ کوئی بھی چیز خریدنے جائیں تو اس کے اوپر قیمت پیسوں میں لکھی ہوتی ہے۔
پٹرول کی قیمتیں کم یازیادہ ہوتی ہیں تو وہ بھی پیسوں میں لیکن ’’پائی پائی ‘‘کا یہ اتنا بڑا ڈاکہ ہے کہ ماہرین معاشیات ہی بتا سکتے ہیں کہ قوم سے اس ’’ قانونی ڈکیتی‘‘ میں کتنے کھربوں روپے لوٹ لئے گئے ہیں اور قوم کا ہر فرد ہر روز اس مد میں لوٹا جاتا ہے۔ قوم سے یہ مذاق بند کیا جائے،حکومت واضح طور پر کرنسی کی قدرو قیمت کے حوالے سے پالیسی سامنے لائے، نہیں تو ایک روپے کے جو ایک سو پیسے بنتے ہیں وہ سکے جاری کئے جائیں اور قوم کے لوٹے گئے کھربوں روپوں کی پائی پائی کا حساب دیا جائے!

تازہ ترین