• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کو کوئی افسانہ کہہ رہا ہے اور کوئی حقیقت۔ اب یہ سوال سب کے ذہن میں بار بار آرہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی یہ خوفناک ویڈیوز کون بنا رہا ہے؟؟ تو یاد رکھیں!یہ ویڈیوز روہنگیا مسلمانوں نے نہیں بنائیں۔ یہ بدھسٹ خود بناتے ہیں اور اس سے کئی مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ اس منظر سے بار بار لطف اندوز ہونے کے لئے اور یہ انسانی ہیجانی کیفیت کا تقاضہ ہوتا ہے۔ جہاں سے ٹاسک اسائن ہوتا ہے ان کو کارکردگی رپورٹ کے ثبوت کے لئے۔ خوف و ہراس کی فضا بنانے کے لئےتاکہ باقی ماندہ افراد خود علاقہ چھوڑ جائیں۔ پھر ان میں سے کچھ ویڈیوز ان کے حلقوں سے نکل کر دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ امریکی عقوبت خانوں ابو غْریب وغیرہ کی ویڈیوز اور تصاویر کس نے بنائی تھیں ؟ ظاہر ہے قیدیوں نے نہیں۔ قارئین! آگے بڑھنے سے پہلے برما کی تاریخ پر سرسری سی نظر ڈالتے ہیں تاکہ مقصد تک پہنچنے میں مدد مل سکے۔ میانمار کا علاقہ ’’اراکان‘‘ روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ اراکان 1784ء تک ایک آزاد ملک تھا۔ اراکانی مسلمانوں کا چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی میں آزاد ملک تھا۔ بعد میں برمیوں نے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ برما کی فوجی حکومت کے دور میں امتیازی قوانین کے ذریعے مسلمانوں کی زندگی مشکل بنا دی گئی۔ جائیداد چھینی، شہریت ختم ہوگئی اور وہ بے ریاست لوگ بن گئے۔ مسلمانوں سے بیگار لیا گیا۔ ایسے حالات میں بڑی تعداد تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش ہجرت کرگئی۔ برما کے مسلمانوں کی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میانمار کی آزادی سے پہلے 1946ء میں بعض مسلم رہنمائوں نے قائد اعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ وہ اراکان کو پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد کی حمایت کریں۔ اس مقصد کے لئے اراکان مسلم لیگ بھی قائم کی گئی، لیکن اس تجویز کو رد کردیا گیا۔ بعد میں مجاہدین نے میانمار کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کردیا۔ عبدالقاسم ان مزاحمت کاروں کے رہنما تھے۔ چند برس مزاحمت کار کامیابی سے شمالی اراکان کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نومبر 1948ء میں میانمار میں مارشل لا لگا اور فوج نے مزاحمت کاروں کے خلاف سخت اقدامات کئے جس کے نتیجے میں یہ شمالی اراکان کے جنگلوں میں روپوش ہوگئے۔ 1954ء میں مزاحمت کاروں نے ایک بار پھر زور پکڑا اور بعض علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔1971ء میںروہنگی مسلمانوں کو ایک بار پھر اسلحہ جمع کرنے کا موقع مل گیا۔ 1972ء میں ظفر نامی ایک شخص نے ’’روہنگیا لبریشن پارٹی‘‘ ترتیب دی اور بکھری ہوئی مسلم تنظیموں کو یکجا کیا۔ 1978ء میں ’’نے ون‘‘ نے ’’آپریشن کنگ ڈریگن‘‘ کے تحت اراکان میں غیرقانونی تارکین وطن کو پکڑنا شروع کیا۔ نتیجتاً ہزارہا مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوئے۔ جون 2012ء کے فسادات کی بنیاد ایک خبر پر رکھی گئی جس میں ایک رکھائنی خاتون پر چند روہنگی مسلمانوں کے حملے اور اسے قتل کردینے کی اطلاع تھی، حالانکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس سے قبل بھی برمی فوجی جنتا نے ایک ایسے ہی مجرمانہ حملے کی جھوٹی خبر اُڑاکر بودھوں کے اشتعال کو مسلمانوں کی طرف منتقل کیا تھا۔ اس بار بھی یہ خبر ملنے پر پہلے ہی وار میں بیسیوں روہنگی مسلمان شہید کئے گئے۔ حکومت نے قاتلوں کو پکڑنے اور انہیں روکنے کے بجائے 10 جون کو ایمرجنسی لگادی۔ رپورٹوں کے مطابق 22 جون 2012تک سینکڑوں مسلمان شہید کئے گئے۔ 90 ہزار افراد بے گھر ہوئے۔ ڈھائی ہزار سے زیادہ مکان جلائے گئے۔ ان میں 13 سو سے زیادہ گھر مسلمانوں کے تھے۔ اس سارے دورانیے میں مسلمانوں کے خلاف جی بھرکر امتیازی سلوک کیا گیا جس پر ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘‘ اور حقوقِ انسانی کی تمام عالمی تنظیموں نے برمی حکومت پر دبائو ڈالا تو ’’تھین سین‘‘ نے اقوام متحدہ کو روہنگیا مسلمانوں کو کسی اور ملک منتقل کرنے کی تجویز دی جو سختی سے رد کردی گئی۔اکتوبر 2012ء میں حالات پھر بگڑگئے۔ اس بار بھی فسادات میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ 46سو مکانات جلائے گئے اور کوئی 22 ہزار افراد بے گھر کئے گئے۔ اب تک بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ مسلم بستیاں تاراج ہونے کا اعتراف ’’تھین سین‘‘ نے خود بھی کیا تاہم متاثرین کو امداد پہنچانے میں اب بھی رکاوٹیں ہیں اور ’’ڈاکٹرز ود آئوٹ بارڈرز‘‘ کی تنظیم نے نومبر 2012ء میں اپنے کارکنوں کو علاقہ چھوڑدینے کی ہدایت کی تھی ، کیونکہ ان کارکنوں کے خلاف بودھوں کی دہشت گردی بڑھ رہی تھی۔ حالات بدستور کشیدہ ہیں بلکہ دن بدن بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ دیکھیں!جون 2012ء میں اراکان میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے۔ جس میںبدھسٹوں نے ہزاروں مسلمانوں کو شہید اور سینکڑوں مسلم آبادیوں کو نذرآتش کردیاتھا، جو مسلمان سمندری راستے سے بنگلہ دیش پہنچے تھے انہیں بنگلہ حکومت نے واپس دھکیل دیا جو واپسی میں بدھسٹوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ اس وقت بھی یہی صورت حال ہے۔ میانمار حکومت کے ظلم و ستم سے تنگ آئے یہ مسلمان مہاجرین ’’آگے کنواں پیچھے کھائی‘‘ کے مصداق ہیں۔ جون 2012ء میں بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 9؍ اکتوبر 2016ء کی درمیانی شب نامعلوم افراد کی جانب سے ملٹری پر حملہ اور ان کے قتل کو بنیاد بناکر بدھسٹ اور ملٹری کی جانب سے مسلمانان اراکان پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیا گیا۔ مزید یہ کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مسلمانوں پر اس حملے کا الزام عائد کیا گیا اور اب دوبارہ ہمارے اراکانی مسلمان بھائی ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ دنیا کے اکثر خطے پاکستان، سعودی عرب، ملائیشیا و دیگر ممالک میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کاعرصۂ دراز سے پُرامن طور پر زندگی گزارنا اس بات کی دلیل ہے کہ روہنگیامسلمان ایک امن پسند قوم ہے جو کہ اپنے وطن میں امن کے خواہاں ہیں اوراپنا بنیادی حق حاصل کرنا چاہتے ہیں، اور ان کو یہ حق ملنا چاہئے۔

تازہ ترین