• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس بات کا خوف تھا وہی ہونے لگا۔ غلامانے امریکہ کی طرف سے نیٹو سپلائی لائن کھلتے ہی دہشت گردی اور بم دھماکوں نے ایک بارپھر سر اٹھا لیا۔ گجرات میں7فوجی جوانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ لاہور میں9معصوم پولیس والوں کو بے گناہ موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کراچی میں بھی دفاع سے متعلقہ ایک شعبہ سے تعلق رکھنے والی بس کو بم کا نشانہ بنایا گیا اور کوئٹہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے جلسہ میں دھماکہ نے 6جانیں لے لیں۔ یہ تمام دہشت گردی کے واقعات ایک ہفتہ کے اندر رونما ہوئے اور نیٹو سپلائی لائن کے کھولے جانے کے ردعمل کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے ان میں سے کچھ واقعات کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔ اللہ جانے ہمیں آگے اور کیا دیکھنا ہے۔ نہیں معلوم ابھی کتنے اور معصوموں کی قربانی امریکہ کو خوش کرنے کیلئے درکار ہے۔ چالیس ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے باوجود ابھی تک تو امریکہ بہادر ہم سے خوش ہوا اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں کا امریکہ کی خاطر اپنے ہی شہریوں کو قربان کرنے کا جذبہ ٹھنڈا پڑا ۔ ہم بھی کمال کی جنگ لڑ رہے ہیں کہ مرنا ہمارے ہی نصیبوں میں لکھا ہے۔ مارنے والا کوئی بھی ہو مرنے والے ہم ہی ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہمارے لوگوں کو ڈرون حملوں سے شہید پر شہید کئے جا رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے سیکیورٹی ادارے اور فوج اپنے ہی لوگوں کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مسلمانوں پر ظلم یہ ہو رہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کی حکومت کی پالیسیوں کو مخالف تحریک طالبان پاکستان بھی اپنے ہی بے قصور بھائیوں بچوں ماؤں اور بیٹوں بیٹیوں کو بدلے کی آگ کی بھینٹ چڑہا رہے ہیں۔ چاہے مرنے والا عام فوجی ہو ، پولیس کا سپاہی اور افسر یاکوئی دوسرا شہری، ان بچاروں سے کون پوچھتا ہے کہ امریکا کی کس طرح خدمت کرنی ہے۔ امریکہ نے بھی پاکستان کو کس چکر میں ڈال دیا ہے کہ سب مرنے والے پاکستانی اور مسلمان ہیں۔ حکومت اور فوج کو پٹی پڑھائی جاتی ہے کہ سوات وزیرستان اور دوسرے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کیا جائے تاکہ شدت پسندی پر قابو پایا جا سکے۔۔ مگرخود ڈرون حملے کرکے شدت پسندی کی آگ کو امریکہ بھڑکائے چلا جا رہا ہے۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں شدت پسندوں کا ایک طبقہ دہشت گردی کے ذریعے اپنے ہی ہم مذہب اور ہم وطنوں کو بے دردی سے قتل کئے جا رہا ہے۔ امریکہ کا اس سارے کھیل میں کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔وہ تو ہمیں ایک دوسرے سے لڑوا کر ہمیں ہمارے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد کروارہا ہے۔ مگر ہم ہیں کہ امریکی جال میں اپنے آپ کو پھنساتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال سلالہ حملہ کے بعد جب نیٹو سپلائی لائن بند کی گئی تو پاکستانیوں میں ایک خوشی کی لہر دوڑی اور ایک امید پیدا ہوئی کہ شاید اب ہم امریکہ کی نام نہاد جنگ سے باہر نکل آئیں۔ نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں اس حد تک کمی واقع ہو گئی کہ فوج پولیس سیکیورٹی اداروں بازاروں مارکیٹوں اور دفاعی اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پر دہشت گرد حملے تقریباً بند ہو گئے۔ مگر امریکہ کو یہ سب کیسے قبول ہو سکتا تھا۔ پاکستان پر مسلط غلامانے امریکہ بھی بے چین تھے کہ کیسے امریکہ کی خوشنودی کو حاصل کیا جائے۔ ہمارے بدقسمتی کہ امریکی مفادات کے تحفظ اور حصول کی خاطر پاکستان نے نیٹو سپلائی لائن کھولنے کا فیصلہ کردیا۔ حکومت کو بارہا سمجھایا گیا، بتایا گیا کہ اگر نیٹو سپلائی لائن دوبارہ کھولی گئی تو پھر شدت پسندی میں اضافہ ہوگا اور دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کا سلسلہ ایک بار پھر چل نکلے گا۔ مگر پاکستان میں انسانی جان کی کوئی حیثیت نہیں۔ کتنے ہی لوگوں کو کیوں نہ ماراجائے ہمارے حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ پاکستان پر مسلط حکمرانوں کو تو کسی بھی قیمت پر امریکی ڈالرز چاہیے چاہے اس کیلئے اپنے ہی مادر وطن کی خودمختاری کا سودا ہی کیوں نہ کیا جائے۔ چاہے اس کی قیمت اپنے ہی ہم وطنوں کی جانوں کا نذرانہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے نہ تو کرپشن چھوڑنی ہے اور نہ ہی خراب طرز حکمرانی میں بہتری لانا ہے۔ ہم نے اپنے وسائل کو بھی صحیح طریقہ سے استعمال نہیں کرنا۔ ہمیں تو پیشہ وربھکاریوں کی طرح مانگ کر‘ ہاتھ پھیلا کر‘ دوسروں سے ملنے والی بھیک پر گزارا کرنا ہے۔ ذرا ہماری حالت دیکھیں کہ ہم نے تقریباً ایک ارب ڈالر کولشن فنڈ کی امریکا سے وصولی کی خاطر نیٹو سپلائی لائن کھول دی مگر پاکستان میں روزانہ 8ارب روپے کی کرپشن روکنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ اگر ہم نے نیٹو سپلائی لائن نہ کھولی ہوتی تو بلاشبہ امریکی بھیک سے محروم رہتے مگر دہشت گردی اور خودکش دھماکوں سے ہماری جان چھوٹ جاتی۔ ہمارے بے حس حکمرانوں کو ایک ارب ڈالر تو نظر آتا ہے مگر افسوس کے وہ 2900ارب روپے کی سالانہ کرپشن کو ختم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ اگر ہم کرپشن پر قابو پالیں تو پاکستان کو کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہیں۔ اگر ہم بیرونی قرضے نہیں لیں گے تو ہم امریکا جیسے دشمن کے ہاتھوں ذلت سے بچ سکتے ہیں۔ مگر این آر او کے ذریعے پاکستان پر مسلط کرپٹ ٹولے کو تو صرف اپنی جیبیں بھرنے اور امریکی مفادات کے تحفظ کا خیال ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی کہ یہاں تو ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ حکمرانی کیلئے امریکہ کی آشیرباد ضروری ہے۔ شاید اسی لئے میاں نوازشریف اور عمران خان نے بھی امریکی سفیر کیمرون منٹر کو یقین دلایا ہے کہ وہ دونوں امریکا کے حامی ہیں۔ امریکا جو ظلم مرضی کرے‘ جتنے چاہے مسلمانوں کو قتل کرے‘ بے شک پاکستان پر ڈرون حملے کرتا رہے مگر اس سب کے باوجود ہمارے سیاستدان امریکا کے حامی ہیں اور اسے کسی صورت ناراض نہیں کرنا چاہئے۔ شاید اس ناراضگی کے ڈر سے نواز لیگ اور تحریک انصاف نے نیٹو سپلائی لائن کھلنے پر اعتراض تو کیا مگر احتجاج کرنا مناسب نہ سمجھا۔ احتجاج کیلئے تو دفاع پاکستان کونسل نے لانگ مارچ کیا مگر ہمارے ٹی وی چینلز اور اُن کی آزادی صحافت کا حال دیکھیں کہ اس لانگ مارچ کو ہیجڑوں کے احتجاج سے بھی کم توجہ ملی۔ اگر کوئی فاحشہ فحاشی کا نیا ریکارڈ قائم کرتی یا کسی میراثی کی شادی کا قصہ ہوتا تو دن رات ٹی وی چینل ان خبروں سے دیکھنے والوں کو پاگل کردیتے مگر دفاع کونسل کے لانگ مارچ کی ٹی وی چینلز کیلئے کوئی خاص حیثیت نہ تھی یا پھر میڈیا بھی امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ دوسری طرف اسلام آباد کے ایک اسکول میں ہم جنس پرستوں کے حقوق جیسے موضوع پر بچوں میں مباحثہ کرانے جیسے سنگین واقعہ کو میڈیا نے عمومی طور پرنظرانداز کیا۔ حامد میرصاحب نے اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں اس مسئلہ کو اٹھایا مگر اس مضموم امریکی اور صیہونی سازش کے خلاف جس قدر احتجاج ہونا چاہئے تھا وہ دیکھنے کو نہ ملا۔ پاکستان میں ہم جنس پرستی کے حقوق کے خاطر امریکی سفارت خانے نے گزشتہ سال ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کا ایک اجلاس بھی طلب کیا تھا مگر ہماری حکومت پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیوں نے امریکا سے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہ کیا۔ ہم اللہ کی پکڑ سے بے خوف مگر امریکا کے محبت میں اندھے ہوچکے ہیں۔
تازہ ترین