• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
حکومت ایک طرف تو نئے اسپتال بنانے پر زور دے رہی ہے اور دوسری طرف نامکمل سرکاری میڈیکل کالجوں کو ’’مخصوص افراد‘‘ کی خواہش پر دھڑا دھڑ میڈیکل یونیورسٹیوں کا درجہ دے رہی ہے۔
بظاہر شور تو یہ ہے کہ حکومت یہ سب کچھ غریب مریضوں کیلئے کر رہی ہے۔ آپ کو ہر سرکاری اسپتال کے باہر غریب مریض روتے پیٹتے، لڑتے جھگڑتے ڈاکٹروں اور حکومت کو برا بھلا کہتے ہوئے ملیں گے۔ ہماری حکومت کی خواہشات بڑی معصومانہ ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ فوراً نئے اسپتال بنا دو۔ بس ایک دیوار چاہئے جس پر ان کے نا م کی تختی لگی ہونی چاہئے۔ نام کی تختی تو قبروں پر بھی لگ جاتی ہے اور اس تختی کے قریب سے تو بعض اوقات رشتہ دار بھی نہیں گزرتے۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں کا بس چلے تو قبروں پر بھی اپنے نام کی تختی لگوا دیں کہ فلاں کچی قبر کو انہوں نے پکا کرایا تھا۔ ارے اللہ کے بندوں جو اسپتال پہلے سے قائم ہیں ان کو اپ گریڈ کر دو، ان میں نئے نئے شعبے قائم کرکے وہاں پر جدید آلات، مشینیں اور لیبارٹریوں کو اپ گریڈ کر دو، ڈاکٹروں کو جدید تعلیم و تربیت دو۔ مگر یہاں تو دوڑ اس بات کی ہے کہ آنے والے الیکشن 2018ء میں انتخابی جلسوں میں کہہ سکیں کہ ہم نے ملک میں اتنے نئے اسپتال بنا دیئے۔ اسپتال اینٹ، گارے، ریت اور سیمنٹ سے بنی عمارت کا نام نہیں اس میں تمام جدید طبی سہولتوں کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پچھلے چند برسوں میں حکومت نے کئی میڈیکل کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیدیا۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج (بالک رام میڈیکل کالج) جو سر گنگا رام نے بنوایا تھا، بالک رام سر گنگا رام کے بیٹے تھے اور اس کے ساتھ ہی سر گنگا رام اسپتال بنایا گیا تھا۔ اس کو 1948ء میں فاطمہ جناح کے نام سے منسوب کر کے پاکستان میں لڑکیوں کی میڈیکل ایجوکیشن کا پہلا کالج بنا دیا گیا تھا۔ ویسے یہ برصغیر میں لڑکیوں کے لئے میڈیکل ایجوکیشن کا پہلا ادارہ تھا۔ اس کالج (اب یونیورسٹی) میں آج تک بعض شعبے نہیں ہیں۔ مثلاً کارڈیک سرجری، شعبہ امراض دل، بچوں کی سرجری کا شعبہ۔ مگر پھر بھی اس کو یونیورسٹی بنا دیا گیا۔ اس طرح فیصل آباد میڈیکل کالج اور نشتر میڈیکل کالج ملتان کو بھی میڈیکل یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔
پچھلے دس برسوں کے دوران حکومت نے کئی تعلیمی اور میڈیکل کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پہلے گرائونڈ ورک یعنی تمام بنیادی سہولتیں فراہم اور ریسرچ شروع کرائی جاتی، اس کے بعد اداروں کو اپ گریڈ کرتے۔ بدقسمتی سے یہاں لوگ صرف اپنے عہدوں کو اپ گریڈ کرانے اور اپنے آ پ کو وائس چانسلر کہلوانے کے لئے کوششیں، سفارشیں اور ہر طرح سے دبائو ڈالتے ہیں۔ کیا ایف جے ایم یو، پنجاب میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) اور نشتر میڈیکل کالج ملتان (اب یونیورسٹی) کے بنانے سے مریضوں کو مزید سہولتیں حاصل ہوئیں؟ یہ تمام ادارے ٹیچنگ اسپتالوں سے منسلک ہیں مگر کسی کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ چھوٹے میاں صاحب آپ اربوں روپے لگا کر نئے اسپتال، موبائل اسپتال اور پتا نہیں کن کن لوگوں کو باہر سے بلا کر لا رہے ہیں کہیں ترکی اور کہیں چین، مگر مریض خوار و رسوا ہو رہے ہیں۔ اتنے مہنگے موبائل اسپتال یونٹ لا رہے ہیں اور ان میں کوئی بھی کامیاب نہیں۔ کس کو کیوں خوش کیا جا رہا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ پھر ہم بات کریں گے تو ناگوار گزرے گی۔ اس ملک میں کوئی سرکاری اسپتال اسٹیٹ آف دی آرٹ نہیں۔
لیں جی حکومت نے لندن میں ہیلتھ سیکٹر روڈ شو کر ڈالا۔ ’’بڑی بات‘‘ ہے کروڑوں روپے اس غریب عوام کے لگ گئے۔ افسروں کی فوج ظفر موج ولایت کی سیر کو پہنچ گئی کچھ افسر پہلے چلے گئے اور کچھ بعد میں پہنچ گئے۔ کوئی بزنس کلاس پر تو کوئی اکانومی کلاس پر، بہترین ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ کہا گیا کہ وہاں پر کام کرنے والے پاکستانی ڈاکٹروں کو ملک آنے کی دعوت دی جائے گی۔ گنگز کالج کے ساتھ مل کرنالج سٹی میں 200بستروں کا اسپتال بنایا جائے گا یہ منصوبہ غالباً اس روڈ شو سے پہلے ہی زیر بحث تھا جگہ جگہ ای میلز ڈالی گئیں۔
پاکستانی سفارتخانے نے بھی بڑی کوششیں کیں کہ برطانیہ میں کام کرنے والے نامور ڈاکٹرز اس ہیلتھ سیکٹر روڈشو میں آئیں مگر باوثوق ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی روڈ شو میں شرکت کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی پھر اس ہیلتھ سیکٹر روڈشو میں پنجاب کے دونوں وزیر صحت بھی نہیں تھے بعض ایسے افراد بھی شریک تھے جن کا براہ راست اس ہیلتھ سیکٹر روڈ شو سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ آپ چاہے دریائے ٹیمز کی سیر کریں اچھے اچھے کھانے اور خاص خاص مشروبات پئیں مگر یہ تو سوچیں کہ اس ملک کے غریب عوام کی آہیں اور بد دعائیں نسل در نسل چلتی ہیں اور ان کا حساب دینا پڑتا ہے۔ ہم اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ بیرون ممالک کام کرنے والے بعض پاکستانی ڈاکٹرز ضرور ایسے ہیں جو اس وطن کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو خدمت تو کرنا چاہتے ہیں مگر اپنی خدمت کا معاوضہ بہت طلب کرتے ہیں ہم نے کچھ ایسے پاکستانی ڈاکٹروں سے جو امریکہ اور برطانیہ میں کام کرتے ہیں ملاقات کی وہ کہتے ہیں کہ ہم یہاں آکر کام کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں کا روایتی بیورو کریسی سسٹم اور تنخواہیں ہمیں قبول نہیں ہم ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر کو جانتے ہیں جو سروسز اسپتال میں شعبہ انتھیزیا میں کام کرتے تھے اور مالی طور پر پریشان تھے وہ تنگ آکر آج سے کئی برس قبل انگلستان چلے گئے اپنے کام میں مہارت رکھتے تھے آج ان کا برطانیہ میں دو ایکڑ کا گھر ہے کیا وہ ڈاکٹر جو یہاں کے سسٹم سے تنگ آکر باہر گیا ہو دوبارہ یہاں آئے گا؟
پاکستان کے ہیلتھ سسٹم کو ان مایہ ناز ڈاکٹروں نے چلایا جو آج سے چالیس پچاس اور 70برس قبل امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں گئے وہاں سے میڈیکل میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی ان میں سے کچھ آئے اور کچھ وہیں رہ گئے ان کے پاس غیر ممالک کی اعلیٰ ڈگریاں تھیں، ان ڈاکٹروں نے پورے ملک کے ٹیچنگ اسپتالوں کا نظام بڑے احسن انداز میں چلایا، پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ ریٹائرڈ ہو گئے کچھ ان میں سے پھر واپس امریکہ اور برطانیہ چلے گئے اور کچھ یہاں رہ گئے۔ اگر ہماری اس وقت کی حکومتیں سمجھدار اور منصوبہ ساز ہوتیں تو ان ڈاکٹروں کو ریٹائرمنٹ کے بعد یہیں پر رکھ لیتیں تاکہ میڈیکل پروفیشن میں جو اچھے ڈاکٹروں کا خلا آج پیدا ہو رہا تھا وہ کبھی پیدا نہ ہوتا، آج بھی میڈیکل پروفیشن میں ایسے ریٹائرڈ پروفیسرز کو جنہوں نے بڑا نام کمایا اور اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں، کنٹریکٹ پر دوبارہ رکھا جا سکتا ہے تاکہ بہترین تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہے۔ یہ تربیت صرف پروفیشن کے حوالے سے نہ ہوتی بلکہ نئے آنے والے ڈاکٹروں کی اخلاقی طور پر بھی تربیت ہوتی۔ آج آپ ملک ملک پھر کر پاکستانی ڈاکٹروں کو باہر سے آکر پاکستان میں کام کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ارے بھائی جو بہترین ڈاکٹرز آج بھی موجود ہیں جن کے پاس غیر ملکی ڈگریاں ہیں ان کی خدمات سے کیوں نہیں فائدہ اٹھاتے؟ آپ نے جو ہیلتھ سیکٹرز روڈ شو کیا ہے اس کے پانچ فیصد بھی نتائج نہیں آئیں گے اور اس ملک کے ان لوگوں کو بھی شرم آنی چاہئے جو اس قسم کے مشورے اور منصوبے بناتے ہیں۔
خدارا توجہ کریں اس ملک پر اس ملک کے وسائل کو اس بے دردی سے ضائع نہ کریں،بس کر دیں۔
میاں صاحب اس ہیلتھ سیکٹر شو کا مشورہ آپ کو جس نے بھی دیا اور وہ شو کتنا کامیاب ہوا اس کا آپ کو بھی پتا ہے اور کتنے ڈاکٹر برطانیہ سے آکر پاکستان کام کریں گے اس کا اندازہ بھی سب کو ہے۔ اس شخص کا کتنا وژن ہے جس نے یہ ہیلتھ روڈ شو کرایا بقول فیض احمد فیض ؎
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

تازہ ترین