• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چارلس ڈکن کا کہا،"THIS IS BEST OF TIME, THIS IS THE WORST OF TIME." نواز شریف کے آج کے حال کی عکاسی ہی، چنائو آپکا۔بہر طور جیت کا کوئی بدل نہیں۔ جیت کے دعوے داربے شمار، ناکامی پیدائشی یتیم۔چند دن پہلے کچھ لوگوں نے تحریک انصا ف کو ممکنہ نتائج میںڈاکٹر یاسمین کی جیت اور اپنا رول بتا یا۔ عمران خان کا اس پر تبصرہ دلچسپ، "ماضی کی طرح اداروں کے دعوے کھوکھلے ہی، ڈاکٹر یاسمین راشد کی جیت کی صورت میںکریڈٹ لیں گے جبکہ ہار کی صورت میں ہمیں ذمہ دار ٹھہرائیں گے"۔ہار کے باوجود ڈاکٹر یاسمین اور چوہدری اعجاز کی قیادت میں چلائی جانے والی انتخابی مہم کی جتنی تعریف کی جائے کم رہے گی۔ علی بابا چالیس چوروں کی الف لیلوی کہانی میں علی بابا خود چو ر نہ تھا،بقول بابابلھے شاہ، "میری بکل میں سب چور"۔ کیا عمران خان کو معلوم ہے؟وطن عزیز کے سب سے بڑے کرپٹ ٹولے کی سربراہی کا اعزاز رکھتے ہیں۔ڈاکٹر یاسمین راشدایک حقی سچی سیاسی کارکن پارٹی کا اصل اثاثہ اور سرمایہ، یقینا ن لیگ کو شکست دینا مشکل نہ رہتا۔ حلقے نے صاف شفاف کھری سچی ڈاکٹر یاسمین کو ہاتھوں ہاتھ لینا تھا۔تعفن اور تقفن، علی بابا گروپ کا یکسوئی اور دلجمعی سے یاسمین راشد کی شکست میںممدومعاون بننا، یقیناً Beligerent Lady کی بھرپور انتخابی مہم کو کھوکھلاکر گیا۔ باکمال ڈاکٹر یاسمین راشد کاایک اور عمل قابل ستائش، باوجود یکہ ضمنی الیکشن پر کاسٹنگ کم رہتی ہے، کثیر تعداد میں اپنے ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پہنچانے میں کامیا ب ہوئیں۔ عمران خان نے اس الیکشن کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی جیت اورہار کا معاملہ ڈکلیئرکیا۔دوسری طرف مریم بی بی نے انتخابی مہم میں اس بیانیے کو چار چاند لگائے، اپنی تقاریر میں عمران خان اینڈ کمپنی کا ذکرسرسری رکھا۔کیا عوام نے سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کر دیا ہے۔عمران خان کو چاہئے کہ اب عوام الناس کو توہین عدالت پر سپریم کورٹ لے جائیں۔ حلقہ این اے 120ن لیگ کی جیت کا سہرا صرف اور صرف مریم نواز کے سر جاتا ہے۔بلاشبہ مریم نواز نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم میں جان ڈالی۔کئی پہلوپھر بھی تشنہ طلب، مسلم لیگ لاہور کے ذمہ داران بمع متعلقین اور خاندان کے دوسرے افراد پردہ سمین سے غائب رہے۔ باہمی اختلافات کی گرم افواہیںتفکرات اور خدشات کومضبوط کرتی رہیں،خاطر خواہ نقصان ہوا۔ NA-120کی خستگی اور زبوں حالی نے ن لیگ کے کارکنوں کو مشکلات سے دوچار رکھا۔ شہباز شریف کا لاہور،جو پیرس کا روپ دھار چکا، تعریف و توصیف میںجتنی کتابیں لکھیں کم رہیں گی۔لاہور دیکھ کر باہر سے آئے ملکی، غیر ملکی سب کی آنکھیں خیرہ رہتی ہیں۔ حلقہ کی خستہ حالی، سمجھ کے کسی خانے میں فٹ نہیںبیٹھتی۔ن لیگ کے حمایتیوں کی وفاداری راسخ نہ ہوتی تو الیکشن کا نتیجہ بھیانک رہتا۔ مریم نواز کو یقیناً بہت سارے کڑے سوالات کا جواب، حساب کتاب دینا پڑا۔ یہ حقیقت موجود، ن لیگ کے سامنے بیشمار رکاوٹیں رہیں۔ فوج کا بیلٹ پیپرز پرنٹنگ سے لے کر عملاً پولنگ دن تک الیکشن کو اپنے کنٹرول میں رکھنا، انتظامی امور اور مانیٹرنگ میں موثر دخل اندازی،اس لحاظ سے خوش آئند ضرور کہ انتخاب غیر متنازع اور پر امن رہے۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے سارا دن ٹی وی پر اپنی فراغت کا فائدہ اٹھایا۔ پنجاب میں حکومت ن لیگ کی، یکے بعد دیگرے موثر لیگی کارکن کمال مہارت سے غائب کر دئیے گئے۔ لیگی ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے میںدشواری، اسکے علاوہ وقت ختم ہونے پر کئی لوگ ووٹ کے حق سے محروم رہے۔غیر مرئی قوتوں نے ایسی مذہبی جماعتوں کوبھی میدان میں اتارا جو نواز شریف کے خلاف حقی سچی غم و غصہ رکھتے تھے۔ ایسے لوگوں کی مہم، اپنی جیت سے زیادہ ن لیگ کی ہار سے منسلک رہی۔ دکھی تو میں بھی کہ ن لیگ کا دامن ایسی چھینٹوں سے یقینی طور پر خالی نہیں۔ ڈان لیکس سے لیکر قادری کی پھانسی تک، کثیر تعداد میںاداروں اور عوام الناس میںجائز غم و غصہ موجود ہے۔ بچت رہی کہ صرف 14000 ووٹ متاثر ہوئے وگرنہ جیت کا مزہ کرکرہ رہتا۔ جیتنے والا سب کچھ لے جاتا ہے، ہارنے والا خالی ہاتھ ملتا ہے۔ مبارک باد کی اکلوتی مستحق مریم بی بی سب کچھ لے گئی،یقینی طور پر جیت سیاسی پروفائل کو چار چاند لگاگئی۔اگرچہ حالیہ تقاریر میں مواد اور ادائیگی متاثر کن نہیں تھی، ایک بات ابھار گئی، مستقبل قریب میںشریف خاندان کو بصورت مریم ایک اچھا مقرر اور میڈیا ہینڈلر مل جائے گا، ایسی صلاحتیں امڈ امڈ نظر آئیں۔ ٹن ٹن ٹن، خطرے کی گھنٹی ا لیکشن کی جیت سسٹم کے لئے خطرات مزید بڑھا گئی۔کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں کہ کچھ قوتیں نظام کے درپے ہیں۔آج گھیرا تنگ کرنے میں کامیاب ہو چکیں۔ ماورائے آئین اور قانون اقدامات کا موسم چھا چکا ہے۔نواز شریف صاحب کے تلخ بیانیہ سے چنداں اختلاف نہیں، طریقہ کار اور" ادلے کے بدلے "سے متفق نہیں ہوں۔ ٹکرائو کی بجائے سیاسی باریک بینی اور دیدہ وری سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ نواز شریف اور انکے ساتھی، مبہم الفاظ میں پاکستان کا گھر ٹھیک کرنے کے طعنے نہ دیں۔ امریکہ اور بھارت نے نہیں بتانا کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔اپنے معاملات پر سیکورٹی اداروں کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔نواز شریف کی پہلی ترجیح اپنی پارٹی کو ٹھیک کرنا ہے۔ن لیگ خوش قسمت کہ بہترین سیاسی دانشمندوں کی بڑی تعدادنواز شریف کے دائیں بائیں موجود ہر حکمت عملی بنانے کی صلاحیت سے مزین ہے۔ شہباز شریف کو خود نواز شریف نے اپنی نگرانی میں 27 سال قومی سطح پرابھارا، سنوارا،بنایا، تربیت دی۔ کسی پارٹی کے پاس ایسا تراشیدہ، بنا بنایا قومی رہنما موجود نہیں۔ چوہدری نثار جیسا نظریاتی معاملہ فہم، زیرک، دانشمندایک نعمتِ غیر مترقبہ، پرویز رشید جیساباصلاحیت سکہ بند سیاسی کارکن معتمد ساتھی، احسن اقبال جیسا سیاسی فکر اور سمجھ بوجھ سے مالا مال وفادار، خواجہ سعد رفیق جیسا سیاسی فن مولاعقاب، ناختم ہونے والی سیاسی گلیکسی بہت کچھ موجود ہے۔آنے والے سالوں کی لڑائی کڑی ہے۔NA120 کی ہار نے "امپائروں" کومزید خونخوار بنا ناہے۔2014 کے وار خطا ہونے کا احساس پہلے سے موجود۔مخدوم جاوید ہاشمی نے 2014میں اسی اسکرپٹ کو ہی تو طشت ازبام کیا تھا۔شکریہ پیرسائیں،آپ ہی نے تومبینہ عدالتی"کودتا" کی وارننگ دی تھی۔کاش سپریم کورٹ آپ سے وضاحت طلب کرپاتی۔ من وعن وہی اسکرپٹ2016 میں دہرایا گیا،بالآخر دھرنا ورژن ٹو،2017میں کامیابی سے ہمکناررہا۔پہلا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے پاچکا۔دوسرا مرحلہ شریف خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ NA 120کی جیت نے شریف خاندان کے خطرات مزید بڑھادئیے ہیں۔ آنے والے اگلے دنوں کی لڑائی غیر معمولی ہے۔نواز شریف کو سوچ سمجھ کر ٹیم بنانی ہے،اتارنی ہے۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں،نواز شریف کا مکو ٹھپنا کچھ لوگوں کی پہلی ترجیح ہے۔ نواز شریف کا مقابلہ سیاسی جماعتوں سے نہیں پس پردہ امپائروں سے ہے۔ معطلی کے دن سے آج تک تسلسل کے ساتھ ن لیگ حکومت بھی اور اپوزیشن دونوں پر قابض ہو چکی ہے۔نواز شریف کا بیانیہ ایک ہی، مقابلہ "عدلیہ پلس" سے ہے۔ میاں صاحب !آپ کو سیخ پا نہیں ہونا،غصہ تھوکناہے۔ حالات نازک اور دگرگوں ضرور ذمہ داری کاتقاضا کرتے ہیں۔اس وقت جناب کی ذات ملکی سیاست کا محور ہے، وطنی سا لمیت جناب کی سیاست سے منسلک ہے۔ سیاسی طالع آزمائوں کا راستہ روکنا ہے مگر دانشمند ی سے۔ وطن عزیز عالم جان کنی میں،جناب کے فیصلے ہی نے تاریخ رقم کرنی ہے۔ اگر اپنی رہنمائی میں8/10ساتھیوں کی کور ٹیم بناڈالیں، جو آنے والے بڑے میچ کے لئے میدان میں اترے۔ مریم نواز،شہباز شریف کی دستِ راست بنیں، بین ہی ایسے جیسے نوا ز شریف کا دست راست شہباز شریف۔ چوہدری نثار، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید، احسن اقبال، خرم دستگیر، امیر مقام، یعقوب ناصر، میجر عامر جیسے سیاسی نابغے خال خال،سر جوڑلئے تو یقیناََ معرکۃ العراء کامیابی مقدر بنے گی۔ طالع آزمائوں کو بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کو نقصان پہنچا توپہلانقصان ہمارے اداروں کوہوناہے۔ خدا کے واسطے تمام فریقین کو جھوٹ، فریب جنگجویانہ رویہ ترک کرنا ہو گا۔مسلم لیگ کا پہلا ہدف و ترجیح،بخیر وخوبی سینیٹ الیکشن کا انعقادہے۔ خوش قسمتی کہ جناب رضاربانی سینیٹ چیئرمین ہیں،جو طالع آزمائوں کا دیوانہ وار مقابلے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ نظام اور معاملات کی بخوبی حفاظت کرسکے۔ دانشمندانہ سیاست، ریاست کی اشد ضرورت ہے۔آئین کو آڑے ہاتھوںلینے والوں کے خلاف جنگ جیت کر ہی نواز شریف سیاست میں واپس آ سکیں گے،ملکی سیاست میں موثر رول ادا کر پائیں گے،اسی صورت میں ممکن اگر جنگ دماغ کی رہی تو۔اگر آئین کے ساتھ اٹھکیلیاں اور چوں چالاکیاںکرنے والوں کو ٹھکانے لگانا ہے، کیفر کردار تک پہنچانا ہے تو یہی نسخہ دانشمندی کارآمد رہے گا۔ نواز شریف کی ایسی جیت کے ساتھ پاکستان کامستحکم مستقبل بھی وابستہ ہے۔ ایسی جیت تاریخ میںبھی مقام دلائے گی،"وگرنہ لڑتے لڑتے ہوجائے گئی گم، دونوں کی چونچ، دونوں کی دم"۔ نواز شریف صاحب! موجودہ حالات ایکOPPORTUNITY جانیں، فراست اور فہم کا امتحان کہ ایسی سیاست کی کامیابی بالآخر پاکستان کی کامیابی ہے۔
1۔ ایک تبصرہ، جنرل باجوہ صاحب کی پارلیمانی وفد سےگفتگو، جنرل صاحب نے یقین دلایا کہ" عسکری ادارے نظام کے درپے نہیں، ذاتی طور پر شریف خاندان سے اچھے تعلقات ہیں"۔ جنرل صاحب کی خدمت میں مودبانہ گزارش،2014 سے آج تک کے حالات و واقعات جناب کی بات کی نفی کرتے ہیں۔زمینی حقائق، لاہور کا الیکشن،JIT تفتیش دوران انہوںنے واقعات بعد ازاں JITرپورٹ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو تشفی کرپائے کہ نادیدہ ہاتھ روبہ عمل نہیں رہے۔ توجہ ہی دلا سکتا ہوںکہ جس طرح امریکہ، بھارت آج وطن کو گھیر رہے ہیں۔ اسکا تقاضا کہ سارے فریقین گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے، یکسو ہو جائیں" وگرنہ داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں "۔

تازہ ترین