• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 19سال بعد مردم شماری کرانے اور گزشتہ دنوں نتائج سامنے آنے کے بعد اِسے متنازع قرار دینے کا سلسلہ بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت حکومت ہر 10سال بعد مردم شماری کرانے کی پابند ہے مگر گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف حکومتیں کسی نہ کسی بہانے مردم شماری کرانے کے معاملے میں تاخیری حربے اختیار کرتی رہیں تاہم کچھ ماہ قبل سپریم کورٹ کی مداخلت اور واضح احکامات کے بعد حکومت نے مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا جبکہ مردم شماری کو تنازعات سے بچانے کیلئے پاک فوج کی مدد لی گئی جس کے ایک لاکھ سے زائد جوانوں نے انتہائی محنت اور لگن سے اس کٹھن مرحلے کو اختتام تک پہنچایا لیکن مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتوں نے اِسے ماننے سے انکار کردیا اور مردم شماری پر نہ ختم ہونے والی تنقید کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ پیپلزپارٹی نے مردم شماری کے نتائج یکسر مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’’سندھ کی آبادی کم ظاہر کرنا وفاق کی سازش ہے جس کا مقصد مالیاتی ایوارڈ میں سندھ کا حصہ کم کرنا ہے۔‘‘ کچھ اِسی طرح کے اعتراضات ایم کیو ایم پاکستان اور ملک کی دیگر بڑی جماعتوں کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں۔
حالیہ مردم شماری کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور مہاجر کیمپوں میں مقیم افغان پناہ گزین شامل نہیں تاہم پاکستان میں رہائش پذیر بنگالیوں اور دیگر قومیت کے افراد کو ملک کی مجموعی آبادی میں شمار کیا گیا ہے۔ مردم شماری میں پنجاب کی آبادی ملک کے دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ 11کروڑ، دوسرے نمبر پر سندھ 4.8کروڑ، تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوا 3.5کروڑ اور چوتھے نمبر پر بلوچستان کی آبادی 1.2کروڑ بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب اور سندھ میں آبادی کی شرح میں کمی جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آبادی کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اس سے قبل 1998ء میں آخری بار مردم شماری کرائی گئی تھی جس کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 13کروڑ 23لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور اگر حالیہ مردم شماری سے اس کا موازنہ کیا جائے تو 19سالوں میں پاکستان کی آبادی میں تقریباً 57فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
مردم شماری سے قبل عام تاثر یہ تھا کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے لیکن مردم شماری کے نتائج سامنے آنے کے بعد یہ اندازہ غلط ثابت ہوا اور اس طرح کچھ سیاسی جماعتوں کو مردم شماری کا سارا عمل مشکوک ٹھہرانے کا موقع مل گیا۔ حالیہ مردم شماری میں یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ پاکستان تیزی سے Urbanization کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک کی 36فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے جبکہ 1998ء میں یہ شرح 32.5 فیصد تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگ روزگار اور دیگر سہولتیں میسر آنے کے باعث تیزی سے بڑے شہروں کا رخ کررہے ہیں اور اس وجہ سے نہ صرف شہروں پر آبادی کا بوجھ بڑھتا چلا جارہا ہے بلکہ مستقبل میں شہروں میں بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور سماجی و معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا امکان ہے۔ مردم شماری میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے جو ملک کی مجموعی آبادی میں عورتوں سے 50 لاکھ زیادہ ہوچکے ہیں جبکہ اس سے قبل عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ موجودہ تشویشناک صورتحال دیکھتے ہوئے کچھ سیاسی جماعتوں کی خواتین ارکان پارلیمنٹ پاکستان میں عورتوں کی آبادی میں کمی کو بھارت سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہیں جہاں لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی ماں کے پیٹ میں ضائع کردیا جاتا ہے۔ اگرچہ خواتین ارکان پارلیمنٹ کا یہ مفروضہ درست نہیں تاہم اس معاملے پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
حالیہ مردم شماری میں سب سے زیادہ تشویشناک بات پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے جو 19سالوں میں 2.4فیصد کی شرح سے بڑھ کر 13کروڑ سے تقریباً 21کروڑ نفوس تک جاپہنچی ہے اور اگر اسی طرح آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو آئندہ 35سالوں میں پاکستان کی آبادی دگنی ہوجائے گی۔ پاکستان کی آبادی میں 2.4فیصد سے اضافے کی شرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ بھارت میں اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح 1.26فیصد، ایران میں 1.27 فیصد، بنگلہ دیش میں 1.2فیصد اور چین میں 0.52 فیصد ہے۔ اس طرح خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی کی شرح تقریباً دگنی ہے جس پر اگر حکومت نے قابو نہ پایا تو مستقبل میں اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خاندانی منصوبہ بندی پر کروڑوں روپے خرچ کررہی ہیں مگر ملکی آبادی کی شرح میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی ازسرنو تشکیل دی جائے تاکہ آبادی کے جن پر قابو پایا جاسکے۔ کسی زمانے میں زیادہ آبادی کو ریاست پر بوجھ تصور کیا جاتا تھا مگر موجودہ دور میں ایسے ممالک جن کی آبادی زیادہ ہے، نے افرادی قوت سے فائدہ اٹھایا جس سے ان ممالک کی معیشت نے بے پناہ ترقی حاصل کی۔ ان ممالک میں چین اور بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ملک میں بڑے پیمانے پر ووکیشنل ٹریننگ کا اہتمام کرے تاکہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی افرادی قوت جس میں 60فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، کی صلاحیتیں بروئے کار لاکر اُنہیں Divident میں تبدیل کیا جاسکے۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ نادرا کے پاس عوام کی ذاتی معلومات اور شناخت کے اعداد و شمار جمع کرنے کیلئے کمپیوٹرائزڈ جدید ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن نادرا ملکی آبادی کے صحیح اعداد و شمار جمع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ دنیا میں کئی ممالک میں مردم شماری کے بجائے پیدائش اور اموات کے ڈیٹا کو بنیاد بناکر مجموعی آبادی کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب پاکستان میں نئی مردم شماری کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہے، نادرا کو چاہئے کہ پیدائش اور اموات کے ڈیٹا کے نظام کو موثر بنائے تاکہ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کی اصل آبادی کا تخمینہ مردم شماری کرائے بغیر لگایا جاسکے۔ اب جبکہ مردم شماری کے نتائج سامنے آچکے ہیں، سیاسی جماعتیں مردم شماری کو مفروضوں کی بنیاد پر تنازعات کا شکار نہ بنائیں کیونکہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوئی ہے اور ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں فوج کی نگرانی میں مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرتی رہی ہیں جبکہ مردم شماری کا مکمل ڈیٹا فوج کے پاس بھی موجود ہے۔ ان حالات میں فوجی قیادت کو چاہئے کہ وہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے تحفظات دور کرے تاکہ پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار نہ ہوسکے۔

تازہ ترین