• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل جب بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یا شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جنگ اون کا بیان آتا ہے تو پنجابی کی مشہور فلم ’مولا جٹ‘ یاد آجاتی ہے۔ بظاہر مولا جٹ فلم تشدد اور شور ہنگامے سے بھر پور ہے لیکن اس پوری فلم میں باقاعدہ لڑائی کے بہت ہی کم سین ہیں۔ لیکن دوسری طرف فلم کا ہر ڈائیلاگ متشدد الفاظ سے بھرا پڑا ہے۔ فلم کا ہیرو مولا جٹ اور ولن نوری نت تقریباً ہر ڈائیلاگ میں ایک دوسرے کے حصے بخیے کرتے سنائی دیتے ہیں لیکن لڑائی ہے کہ ہو کے نہیں دیتی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے بعد جو بیانات دئیے ان سے بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ امریکہ بہت جلد شمالی کوریا کو نیست و نابود کردے گالیکن یہ سارے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ شمالی کوریا پر حملہ کرنے کی غلطی نہیں کر سکتا کیونکہ اس میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن جائیں گے۔ درون خانہ امریکیوں کو علم ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف جنگ ناممکن ہے۔ شمالی کوریا کے معاملے میں اپنے آپ کو بے بس پاکر امریکی سارا بوجھ چین پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار بنانے سے منع کرے۔ یہی معاملہ پاکستان کا ہے۔
پاکستان کے خلاف بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان کافی حد تک مولا جٹ کی روایت کے زمرے میں آتا ہے۔ صدر ٹرمپ نے جس طرح پاکستان کو مطعون کیا وہ اس سے پہلے کسی امریکی صدر نے نہیں کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ پاکستان پر پردے کے پیچھے تنقید ہوتی تھی۔ امریکہ کے وزیر خارجہ یا اس سے نچلی سطح کے افسر پاکستان کو سخت سست کہنے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اسی لئے جب صدر ٹرمپ نے خود براہ راست پاکستان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تو پاکستان کی افغان پالیسی کے ناقدین خوشی سے پھولے نہ سمائے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کردیا اب پورا منظر نامہ تبدیل ہو گیا ہے اور اب امریکہ نے پاکستان کو ’دشمن‘ ملک قرار دیتے ہوئے بہت ہی سخت اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ بعض کونوں سے تو یہ آوازیں بھی اٹھیں کہ امریکہ پاکستان کے مخصوص شہروں کو نشانہ بنانے جا رہا ہے۔ پاکستان پر شدید قسم کی معاشی پابندیاں لگنے کے امکانات تو واشنگٹن حلقوں میں زبان زد عام ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی مخصوص شخصیتوں کے خلاف پابندیاں لگا دی جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس پاکستان کے خلاف دائرہ اختیار بہت محدود ہے اور پاکستان کے ناقدین کو صدر ٹرمپ کی بڑھکوں پر زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ صدر ٹرمپ تو ہر معاملے میں ’مولا جٹ‘ بنے نظر آتے ہیں۔
عملی سطح پر امریکہ چند ہزار فوجیوں کے اضافے سے افغان جنگ کا پلڑا نہیں پلٹ سکتا۔ اگر ایک لاکھ سے زیادہ امریکی فوجی افغان طالبان کو ختم نہ کر سکے تو چند ہزار فوجی یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیں گے؟ امریکہ کے اعلیٰ سطحوں کے جائزوں کے مطابق افغانستان کا چالیس فیصد حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ طالبان مقامی وسائل سے گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں اس لئے ان کو مکمل شکست دینا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے سفارتی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے کہ افغان جنگ صرف مذاکرات کے ذریعے ختم کی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ہی ہونا ہے کہ آخر میں امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کرنے ہیں تو پاکستان طالبان کے ساتھ بگاڑ کیوں پیدا کرے؟ لیکن یہ بھی درست ہے کہ پاکستان کو اپنے ہاں پائی جانے والی تنظیموں کی صفائی کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ پاکستانی مولا جٹ اس سلسلے میں اپنی طرز کی مخصوص بڑھکیں لگا رہے ہیںلیکن اس سلسلے میں جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہے کیونکہ چین اور روس نے بھی برکس کے اعلامیے میں پاکستان سے جہادی تنظیموں کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
اگرچہ امریکہ پاکستان کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اس کا ہندوستان کا پتہ بھی کوئی خاص فرق نہیں پیدا کرے گا لیکن پاکستان کو اپنے اندرونی امن اور ہم آہنگی کے لئے جنگجو عناصر کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ امریکہ نے ہندوستان کو افغانستان میں موثر کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے لیکن ہندوستان افغان طالبان کے خلاف تو لڑے گا نہیں، اس لئے اس کا افغانستان میں کردار بہت ہی محدود رہے گا۔ ہندوستان ترقیاتی منصوبوں میں افغانستان کی مدد کر سکتا ہے لیکن یہ تو تب نتیجہ خیز ہوگا جب وہاں مکمل امن ہو۔ پاکستان کو اس سلسلے میں زیادہ تشویش کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں البتہ اگر علاقے کے تینوں ملک، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑتے رہیں گے،تو علاقے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی چین ہے جو پہلے پس پردہ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بیخ کنی کا مشورہ دیتارہا ہے اب برکس کے اعلامیے کے ذریعے کھل کر پاکستان کو مخصوص مذہبی تنظیموں کے خلاف اقدامات کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے مثبت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’پاکستان کو اپنا گھر ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے‘‘ سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ابھی تک ضیاء الحق کے دور کے سحر سے باہر نہیں نکلے اور وہ اب بھی ان پالیسیوں کو جاری رکھنے کا اشارہ کر رہے ہیں جو پاکستان کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی بڑی قیمت چکائی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان میں وہ تنظیمیں دندناتی پھریں جن پر عالمی سطح پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ غرضیکہ پاکستان کو صدر ٹرمپ کے مولا جٹ جیسے بیانوں کے مقابلے میں مولا جٹ یا نوری نت بننے کی ضرورت نہیں ہے۔

تازہ ترین