• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید الاضحی میں صرف تین روز باقی تھے بڑی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے اہل خانے کے ساتھ بقرعید منانے کراچی سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں کا رخ کررہے تھے، کراچی میں محکمہ موسمیات کئی روز سے بارش کی پیشگوئی کررہا تھا اس دفعہ بارش توقعات سے کہیں زیادہ ہوئی جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی، سڑکیں دریائوں کی مانند نظر آرہی تھیں، کئی گاڑیاں پانی میں ڈوب گئیں، بجلی کے کڑکڑانے کی آواز بھی لوگوں کو مزید خوفزدہ کیےرہی، کوئی حکومتی مشینری سڑکوں پر جمع ہونے والے پانی کو نکالنے کیلئے موجود نہ تھی، ٹریفک پولیس بھی غائب تھی، شہر کے گٹر ابل رہے تھے جبکہ نالے کچروں سے بھرے ہونے کے سبب بارش کے پانی کے ساتھ مزید ابل رہے تھے پانی اور کچرا سڑکوں پر بہہ رہا تھا، بجلی کے تار بھی جگہ جگہ گرے ہوئے نظر آرہے تھے، غرض اس لاوارث شہر کا کوئی بھی باسی اپنے دفتر یا دیگر مقامات سے گھر تک بھی خیریت سے پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ کے حضور شکرانہ واجب ہوتا، یہی حال ایشیاکی سب سے بڑی جانوروں کی منڈی کا بھی تھا جہاں جانور بھی گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبے اپنی فروخت کے انتظار میں کھڑے تھے، کراچی کے باسیوں کیلئے یہ بارش انتہائی شدید اور غیر متوقع تھی،بارش کیساتھ ہونے والی گرج چمک بھی ماضی کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ماحولیاتی ماہرین نےملک میں حالیہ برسات کو عالمی سطح پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے، درحقیقت گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی شدید بارشوں اور گرجدار آوازوں کے ساتھ چمکنے والی خونخوار بجلیوں نے بہت سے ماحولیاتی ماہرین کو بھی چوکنا کر دیا ہے۔ یہ تبدیلیاں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر رونما ہورہی ہیں جس کے باعث دنیا بھر میں غیر موسمی اور غیر متوقع طور پر خطرناک بارشیں، سیلاب، بجلیوں کا کڑکنا اور زمین پر گرنا، سمندری طوفان اور سونامی جیسے واقعات منظر عام پر آرہے ہیں، اکثر ماہرین ان ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار صنعتوں کے پھیلائو کو قرار دیتے ہیں تاہم اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں خاص طو ر پر تیسری دنیا کے ممالک میں صنعتی پھیلائو کے دوران ان اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا جن کے باعث آلودگی پر قابو پا یا جاسکتا ہو، گزشتہ دنوں کراچی کے ساحل پر آلودگی میں اضافے کے سبب ماحولیاتی تبدیلیوں اور اس کے نقصانات کو اجاگر کرنے کیلئے وزارت ماحولیات کی جانب سے خصوصی واک کا انعقاد کیا گیا جس کے مہمان خصوصی وفاقی وزیر ماحولیات سینیٹر مشاہد اللہ خان تھے جس میں انہوں نے شہریوں سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کے حوالے سے گفتگو کیساتھ ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالی جو حکومت ماحول کو بہتر بنانے کیلئے کررہی ہے جبکہ شہریوں سے بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنے پر زور دیا، اسی روز شام کو راقم کے ساتھ ملاقات میں بھی مشاہد اللہ خان نے وزارت ماحولیات سنبھالنے کے بعد سے اب تک کیے جانے والے اقدامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان تیسری دنیا کے ان ممالک میں سے ہے جہاں ماحول اور ارضیاتی تبدیلیوں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ دنیا بھر کے ممالک ماحول کی بہتر ی اور آلودگی کے خاتمے کیلئے اربوں ڈالر سالانہ خرچ کررہے ہیں، صرف کراچی کے حوالے سے وفاقی وزیر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میںکئی دہائیوں سے جانوروں، اسپتالوں اور عام استعمال کا بیس ہزار ٹن سے زائد فضلہ ہر روز سمندر برد کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ماحول بلکہ سمندری حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے،صوبائی حکومت کی جانب سے کچرا تلف نہیں کیا جارہا، وفاقی وزیر کے مطابق کراچی میں اگر صرف جانوروں کا فضلہ جو بارہ ہزار ٹن روزانہ بنتا ہے اگر اسے استعمال میں لاکر بائیو گیس تیا ر کی جائے تو تقریباََ تیس میگا واٹ بجلی روزانہ پیدا کی جاسکتی ہے جبکہ کئی ہزار ٹن کھاد تیار کی جاسکتی ہے تاہم اس کیلئے حکومت کے ساتھ نجی شعبے کو بھی آگے آنا پڑے گا، آلودگی میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ اسپتالوں سے نکلنے والا فضلہ بھی ہے، مشاہد اللہ خان کے مطابق ہر اسپتال کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ تعمیرکے وقت اسپتال میں ہی فضلہ تلف کرنے کیلئے سہولت رکھی جائے تاہم تمام اسپتال یہ فضلہ سمندر برد کرتے ہیں جس سے شدید آلودگی اور ماحولیاتی مسائل جنم لیتے ہیں، مشاہد اللہ خان کے مطابق سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے یہ وزارت انھیں خصوصی ٹاسک کے ساتھ دی ہے تاکہ پاکستان میں جنگلات میں اضافہ ہوسکے، کم ہوتی جانوروں کی نسلوں کے اضافے پر کام کیا جاسکے، سمندر برد ہونے والے فضلے پر قابو پایا جاسکے، غرض پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کیلئے جہاں تک ممکن ہواقدامات کیے جاسکیں۔ ماحول اور آلودگی کے خاتمے کے حوالے سے حکومتی کوششیں پہلی دفعہ منظر عام پر آنے لگی ہیں دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے آخری چندماہ میں مشاہد اللہ خان کو ئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں یانہیں، مشاہد اللہ خان حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں لہٰذا ان سے وفاقی سیاست سے ہٹ کر ن لیگ سندھ کی سیاست پر گفتگو کی، خاص طور پر کراچی میں دو دہائیوں سے مسلم لیگ ن کا پرچم بلند کرنے والے سیاستداں اور ن لیگ سندھ کے نائب صدر علی اکبر گجر جنھوں نے کراچی کے مرکز میں یونین کونسل کی پانچ سیٹیں بھی جیتیں، کراچی میں میاں نواز شریف کا نام بلند کرنے پر کئی دفعہ قاتلانہ حملوں کا سامنا بھی کیا، ان کی مایوسی پر بھی بات کی جو وفاق میں اپنی حکومت، سندھ میں اپنا گورنر ہونے اور وزیراعظم کی جانب سے پچیس ارب دیئے جانے کے باوجود اپنے علاقے میں کوئی بھی ترقیاتی کام کرانے سے قاصر ہیں اس حوالے سے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ علی اکبر گجر جیسے لوگ پارٹی کا سرمایہ ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ رہے ہیں ان کے مسائل کے حل کیلئے گورنر سندھ کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اگلے عام انتخابات میں عوام کا ن لیگ پر اعتماد بڑھ سکے جس کیلئے وہ بھی وزیراعظم اور گورنر سندھ سے خصوصی بات چیت کریں گے۔

تازہ ترین